وفاقی حکومت اسلام آباد کا ایک بڑا پارک اور سڑک گروی رکھ کراجارہ سکوک بانڈز کا اجرا کرنے جارہی تھی لیکن وزیر اعظم نے تجویز مسترد کردی۔ حزب اختلاف نے اس تجویز پر بہت شور مچایا لیکن یہ سیاسی جماعتیں عوام کو یہ بتانا بھول گئیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے گزشتہ ادوار میں بھی موٹرویز، ائیرپورٹس اور اسلام آباد کی سرکاری عمارتیں گروی رکھ کر وفاقی حکومت ایسے قرضے حاصل کرتی رہتی تھیں۔ بینکوں کے کنسورشیم ایسی پراپرٹی کے عوض حکومت کونسبتاًکم شرح سود پر قرض فراہم کرتے ہیں۔ قرض تو حکومت کو ہرحال میں لینا پڑتا ہے کیونکہ وفاقی حکومت کے اخراجات اسکی آمدن سے دوگنا ہیں۔ اسوقت وفاقی حکومت کوتقریباً پونے چار ہزار ارب روپے کے خسارہ کا سامنا ہے۔ حکومت کے پاس ایک راستہ تو یہ ہے کہ وہ ٹیکس وصولی میں سختی کرے۔ بڑے زمیندار اور دکاندارجو ٹیکس نہیں دے رہے یا بہت ہی کم دے رہے ہیں ان سے ٹیکس حاصل کرے۔ حکومت ایسا کرے گی تو تاجر ہڑتالیں شروع کردیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں ان کے ساتھ مل جائیں گی اور ملک ایک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ دوسرا راستہ یہی بچتا ہے کہ حکومت قرض لیکر کام چلائے۔ سو وہ ایسا کررہی ہے جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے۔ ہر حکومت نے معیشت چلانے کو آسان راستہ اختیار کیا۔ ایڈہاک ازم سے وقت گزارا۔ تحریک انصاف نے بھی اسی طریقہ کا انتخاب کیا ہے۔ حالانکہ اس سے توقع تھی کہ یہ نظام میں کچھ بنیادی تبدیلیاں متعارف کرائے گی لیکن ابھی تک ایسا ہونہیں سکا۔
پاکستان ایساملک ہے جسے متعددسنگین امراض لاحق ہیں۔ ان میں کمزور معیشت سر فہرست ہے۔ لسانی، نسلی اختلافات اور فرقہ وارانہ تقسیم اسکے سوا ہیں۔ غربت بہت زیاہ ہے۔ امیر غریب کا فرق وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ معاشرہ پر دقیانوسی، توہم پرست اور جدید دنیاکے تقاضوں سے بے خبر مبلغین کا غلبہ ہے، جدید تعلیم میں سرمایہ کاری دیگر ملکوں سے بہت کم ہے۔ یہ ایک نسبتاً نیا ملک ہے جسکی ایک قومی ریاست کی حیثیت سے طویل تاریخ نہیں۔ مثلاً ترکی، ایران، چین اور انڈیا طویل قومی تاریخ رکھتے ہیں۔ پاکستان کو بنے ہوئے صرف تہتر برس ہوئے ہیں۔ اس دوران اسکا ایک بڑا حصہ علیحدہ ہوکر الگ ملک بن چکا ہے۔ جن علاقوں پر یہ اب مشتمل ہے ان میں اپنی علاقائی شناخت پاکستانی تشخص سے زیادہ مضبوط ہے۔ پاکستانی قوم پرستی پوری طرح جڑ نہیں پکڑ سکی۔ اس پر مستزاد عوام الناس کی روزمرہ زندگی میں وفادار ی ریاست سے زیادہ اپنے عقائد کے ساتھ ہے۔ وہ ان دونوں میں توازن پیدا نہیں کرسکے۔ ریاست سے صرف فائدہ لینا چاہتے ہیں اسکو رضاکارانہ طور پر کچھ دینا نہیں چاہتے۔ اپنے اپنے عقائد اورصدیوں پرانے رسم و رواج کی خاطر بہت کچھ کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔ عوام کا ریاست سے تعلق اجنبیت اور مغائرت پر مبنی اور کسی حد تک معاندانہ ہے۔ لوگوں کی ریاست سے وابستگی صرف اسی صورت میں ظہورپذیر ہوتی ہے جب کسی بیرونی جارحیت کے خطرہ کا سامنا ہو۔
ان بنیادی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان حکومت کرنے کیلیے ایک مشکل ملک ہے۔ ملک میں ہر وقت کوئی نہ کوئی شورش بپا رہتی ہے۔ اقتدار کی جنگ۔ لسانی، نسلی ہنگامے، فرقہ وارانہ کشیدگی۔ کوئی بھی حکومت دیرپا معاشی مسائل کو حل کرنے کی خاطر دلیرانہ اقدام کرنے سے ڈرتی ہے کہ سیاسی مخالفین اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اسکا تختہ الٹ دیں گے۔ وزیراعظم عمران خان سے توقع تھی کہ وہ روایتی سیاستدان نہیں اس لیے ملکی معاملات سلجھانے کی غرض سے بڑے اقدامات کریں گے۔ ابھی تک وہ ایسا نہیں کرسکے۔ اس لیے ان کے بعض حامی بھی مایوس ہیں۔ عمران خان کی ایک مجبوری تو یہ ہوئی کہ دو ہزار تیرہ کے جنرل الیکشن میں ان کو قومی اسمبلی میں واضح سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔ ان کی حکومت ق لیگ اورایم کیوایم کی بیساکھیوں پر قائم ہے۔ وہ کوئی ایساقدم نہیں اٹھا سکتے جس سے یہ اتحادی جماعتیں ناراض ہوکر ان کا ساتھ چھوڑ دیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سینٹ میں ان کی پارٹی اقلیت میں ہے۔ وہ پارلیمان سے کوئی قانون آسانی سے منظور نہیں کرواسکتے کیونکہ دونوں ایوانوں میں اکثریت درکار ہوتی ہے۔ ایک طرح سے ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ مارچ کے شروع میں سینٹ کی نصف نشستوں پر الیکشن ہورہے ہیں جس میں توقع ہے کہ تحریک انصاف کی ایوان بالا میں بھی سادہ اکثریت ہوجائے گی۔ اس کے بعد دیکھنا ہوگا کہ ان کی حکومت کیا اصلاحات متعارف کراتی ہے۔ گزشتہ اڑھائی سال تو ایڈہاک ازم کی نذر ہوگئے۔ رہی سہی کسر کورونا وبا نے پوری کردی۔ ملکی وسائل اس بلا کو قابو کرنے میں لگ گئے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقہ میں کسی قسم کی اصلاحات کا نہ تو جذبہ موجود ہے نہ ان کی اتنی بصیرت اور قابلیت ہے۔ دس پندرہ فیصد امیر آبادی موجودہ نظام سے خوب فائدہ اٹھا رہی ہے۔ صرف غریب اور سفید پوش پس رہا ہے۔ اس کی حکمران اشرافیہ کو کوئی خاص فکر نہیں۔ حالات جب زیادہ خراب ہوں تو شلجموں سے مٹی جھاڑ دیتے ہیں۔ اشک شوئی کردیتے ہیں۔ عوام چوں چوں تو کرتے رہتے ہیں لیکن نظام میں بہتری کیلیے کوئی ٹھوس عملی اقدام کرنے کو تیار نہیں۔ موجودہ افسر شاہی اورانتظامی ڈھانچہ کے ہوتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کوئی اصلاحات لانے کی کوشش بھی کریں گے تو ڈر ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہونگی کیونکہ انتظامیہ ان پر عمل درآمد نہیں کراسکے گی۔ مثلاً ملکی معیشت کو پٹڑی پر لانے کے لیے چالیس پچاس لاکھ تاجروں، دوکانداروں اور بڑے زمینداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا اور ان سے ٹیکس وصول کرنا ایک اہم ترین ضرورت ہے تاکہ قرضوں کی بجائے حکومتی آمدن سے بجٹ چلایا جائے۔ قرض لیاجائے تو صرف بڑے ترقیاتی کاموں کی غرض سے۔ صرف اس کام کی خاطر پورے انتظامی ڈھانچہ کو بدلنا ہوگا۔ ٹیکس مشینری کی افسر شاہی سخت مزاحمت کرے گی جیسا کہ ماضی میں بھی اس نے کیا۔ اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کے خلاف صف آرا ہوجائیں گی۔ یہی معاملہ دیگر شعبوں کا ہے۔ پولیس کے نظام میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا جا سکی کیونکہ پولیس کی افسر شاہی کا مفاد اس میں ہے کہ کام اسی طرح چلتا رہے۔ ارکان اسمبلی بھی پولیس کو غیر سیاسی نہیں ہونے دینا چاہتے کیونکہ نظام کے بدلنے سے ان کی اپنے علاقہ پر اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔ اصلاحات کے راستے میں ان پہاڑ ایسی رکاوٹوں کو عبور کرنے کی خاطرایک جرات مند، نڈر لیڈر چاہیے جو انجام کی پرواہ کیے بغیر چند بڑے کام کر ڈالے۔ وزیراعظم عمران خان کی مدّتِ اقتدارمکمل ہونے میں ابھی اڑھائی برس ہیں۔ سینٹ الیکشن کے بعد دیکھتے ہیں کہ وہ مصلحتوں کا شکار رہتے ہیں یا عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے اہم فیصلے کرتے ہیں۔ حالات اس نہج پر ہیں کہ یہ ہومیوپیتھی طریقہ سے ٹھیک ہو نہیں سکتے۔ ریڈیکل سرجری کی ضرورت ہے۔