ویتنام دنیا میں تیر رفتاری سے معاشی ترقی کرتا ہواملک ہے۔ گزشتہ ایک سال سے پھیلی ہوئی مہلک کورونا وبا نے جن ملکوں کو بہت کم متاثر کیا ہے ان میں سے ایک ویتنام بھی ہے۔ ایک سال میں یہاں صرف ڈیڑھ ہزار لوگوں کو کورونا انفیکشن ہوا اور پینتیس افراد اس باعث ہلاک ہوئے۔ اس دوران میں پوری دنیا معاشی مندی کا شکار ہوگئی لیکن ویتنام میں معیشت ترقی کی منازل طے کرتی رہی۔ البتہ یہ ضرور ہُوا کہ اسکی ترقی کی شرح سات فیصد سالانہ سے کم ہوکر اڑھائی فیصد پر آگئی کیونکہ اسکی ترقی برآمدات پر مبنی ہے اور دوسرے ملکوں نے وبا کے باعث مال خریدنا بہت کم کردیا تھا۔
تقریباً دس کروڑ آبادی پر مشتمل ویتنام جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کی ایک بڑی وجۂ شہرت تو یہ ہے کہ انیس سو ستر کی دہائی میں ویتنام کی کمیونسٹ پارٹی نے دنیا کی سپر طاقت امریکہ کو گوریلا جنگ میں شکست سے دوچار کیا اور اپنے ملک کے جنوبی حصے پر اسکے قبضہ کوختم کرایا۔ پوری دنیا میں سامراج مخالف عوامی تحریکوں کیلیے ویتنام عوامی مزاحمت کی ایک مثال بن کر اُبھرا۔ انیس سو پچہتر میں شمالی اور جنوبی علاقوں کے اتحاد سے جدید ویتنام وجود میں آگیا۔ اسکی تزویراتی (اسٹریٹجک) اہمیت یہ ہے کہ اسکی طویل مشرقی اور جنوبی سرحد کے ساتھ ساتھ بحرِ جنوب چینی (ساوتھ چائنا سی) واقع ہے جو دنیا کا بڑا بحری تجارتی راستہ ہے۔ شمال میں ملک کی طویل سرحد چین سے متصل ہے۔ ویتنام میں ایک پارٹی پر مشتمل کمیونسٹ سیاسی نظام ہے۔ یہ ایک وحدانی مملکت ہے، وفاق نہیں۔ انیس سو پچاسی تک ویتنام ایک بہت غریب ملک تھا، پاکستان سے بہت پیچھے۔ اسکی فی کس قومی پیداوار230 امریکی ڈالر تھی جبکہ پاکستان کی 338ڈالر۔ انیس سو چھیاسی میں ویتنام کی حکمران کمیونسٹ جماعت نے نئی پالیسیاں اختیار کیں جسکے بعد یہ ملک آگے بڑھتا گیا۔ ان اصلاحات کے تحت سیاسی نظام سوشلسٹ رکھا گیا لیکن معیشت میں نیم سرمایہ دارانہ ماڈل اختیار کیا گیا۔ ایک طرح سے ملی جلی معیشت کہہ سکتے ہیں۔ آج اس ملک کی فی کس قومی پیداوار 3500 ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی 1130ڈالر یعنی اس سے تقریباًتین گُنا کم۔ ویتنام میں شرح خواندگی پچانوے فیصد ہے جبکہ ہمارے ہاں تقریباًساٹھ فیصد۔ گزشتہ تین دہائیوں میں ویتنام کے لوگوں کے معیار زندگی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہاں غربت مسلسل کم ہورہی ہے۔ یہ متوسط آمدنی والا ملک بن گیا ہے۔ ایک سماجی اعشاریہ دیکھیے۔ ویتنام میں ایک ہزار میں سے بیس بچے پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ اسکے برعکس پاکستان میں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ یہاں ایک ہزار میں سے68 نومولودبچے فوت ہوجاتے ہیں۔ غرض ہر اعتبار سے ویتنام ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے جبکہ تیس سال پہلے پاکستان اس سے بہت آگے تھا۔ ہم نے جس طرح گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں اپنے ملک کوہر شعبہ میں پسماندہ بنایا ہے وہ بھی دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔
اسوقت ویتنام ایشیا اور بحرالکاہل کے خطّہ میں سب سے تیز ترقی کرنے والی ڈیجیٹل معیشت ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی کی بنیادپر صنعتی پیداوارکا بڑا مرکز ہے۔ کورونا وبا سے پہلے گزشتہ مسلسل تین برسوں سے اسکی قومی پیداوار میں سالانہ ترقی کی شرح سات فیصد تھی۔ دنیا کی بڑی کثیرالقومی(ملٹی نیشنل) کمپنیاں جیسے نائکی، ایپل، ایل جی، سام سنگ، پائینیروغیرہ نے ویتنام میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ یورپ اور امریکہ کی کمپنیوں نے یہاں سلے ہوئے کپڑے تیار کرنے کے کارخانے لگائے ہوئے ہیں۔ چند برس پہلے امریکہ نے چین سے درآمدات پر پابندیاں لگانا شروع کیں تو بڑی کمپنیوں نے اپنے کارخانے اور دفاتر ویتنام منتقل کرنا شروع کردیے۔ اب ویتنام جنوب مشرقی ایشیا میں سنگاپور کے بعد الیکٹرانکس سامان اورسلے ہوئے کپڑوں کی برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
ویتنام کی حیرت انگیز معاشی اور سماجی ترقی کا راز چند پالیسیوں میں پوشیدہ ہے۔ سب سے پہلے حکومتی جماعت نے پرائمری تعلیم اور فنی تعلیم پر بھاری سرمایہ کاری کی۔ ویتنام اپنی کُل قومی پیداوار کا سوا چار فیصد تعلیم کے شعبہ پر خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان سوا دو فیصد۔ دوسرے، ویتنام نے بیرونی تجارت پر سے پابندیاں ختم کردیں۔ تیسرے، کاروبار کرنے کی لاگت میں کمی کی اور افسر شاہی کے بزنس پر کنٹرول کو نرم کردیا۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا۔ انٹرنیٹ کے نرخ بہت سستے کردیے جس سے آئی ٹی کو فروغ ملا۔ ویتنام کا خطہ کے ممالک کی تنظیم آسیان سے آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہے۔ چین، انڈیا اور جاپان سے بھی تجارت آسان بنانے کے معاہدے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان، کوریا، یورپ اور امریکہ سے سرمایہ کاروں نے ویتنام کا رُخ کرنا شروع کردیا۔ یہ صنعتی ترقی کا مرکز بن گیا۔ پڑھے لکھے، ہنرمند مزدور اور کاریگر کم اجرت پر دستیاب ہوں اور حکومتی رکاوٹیں نہ ہوں تو کون سرمایہ کار ایسی جگہ پر کام نہیں کرے گا؟ سب سے اہم، ویتنام میں سیاسی شورش نہیں۔ ایک پارٹی پر مشتمل مستحکم سیاسی نظام ہے۔ میڈیا کو فساد پھیلانے کی اجازت نہیں۔ عدلیہ کو انتظامی کاموں اور بزنس کے معاہدوں میں ٹانگ اڑانے کا حق نہیں۔ ویت نام کی حالیہ تاریخ امریکہ سے جنگ و جدل پر مبنی ہے اور چین سے اسکے سرحدی اور دریا کے پانی پر تنازعات ہیں لیکن اسکے باوجود اس نے اِن دونوں ملکوں سے پُرامن بقائے باہمی کے تعلقات قائم کیے۔ دونوں سے سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دیا۔
ان دنوں ویتنام کے دارالحکومت ہانوئی میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی نو روزہ کانگریس (اجلاس)ہورہی ہے جو ہرپانچ برس بعد منعقد کی جاتی ہے۔ اس اجلاس میں سولہ سو مندوبین اگلے برسوں کے لیے پارٹی اور ملک کے سربراہ کا انتخاب کریں گے اور ملک کی اندرونی اور خارجہ حکمت عملی کا تعین کریں گے۔ توقع ہے کہ موجودہ صدر نواِن فُوچاؤتیسری بار بھی پارٹی کے سربراہ اور ملک کے صدر کے طور پر منتخب کرلیے جائیں گے۔ اور ویتنام کی پالیسیاں بھی تقریباً وہی رہیں گی جنکا پانچ سال پہلے کمیونسٹ کانگریس نے تعین کرلیا تھا۔ اب ہدف یہ ہے کہ اگلے دس برسوں میں ویتنام مکمل جدید صنعتی ملک بن جائے اور اگلے پچیس برسوں میں دنیا کے امیر ملکوں کی صف میں شامل ہوجائے۔ پیشین گوئی یہ ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں ویتنام کی معیشت سات فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کرے گی۔ اگر پاکستان کا حکمران طبقہ ویتنام سے کچھ سبق سیکھے تو کم سے کم بنیادی تعلیم کے شعبہ میں سرمایہ کاری دُوگنا کردے۔ شائد ہمارے دلدّر بھی دُور ہوجائیں۔