اور بھی کئی کیسز ہیں جو معزز عدالتوں کی توجہ کے طالب ہیں۔ ان میں سے کچھ کیسز کی عمر تو پرویز مشرف کے کیس سے بھی زیادہ ہے اور شاید اہمیت بھی، مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان میں خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ یسی ہی خصوصی توجہ کچھ اور کیسز کو بھی درکار تھی، ان میں سے چند کیسز کا ذکر کر لینے میں ہرج نہیں کہ شاید ہزاروں لوگوں کو انصاف مل سکے۔
12 مئی 2007 کو 50 سے زیادہ افراد کو زندہ جلا دیا گیا یا گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ شہر میں نامعلوم بلاؤں کا راج تھا، کوئی جان محفوظ نہ تھی۔ اس واقعے کو 12 سال اور 7 ماہ ہو گئے۔ یہ 4601 دن بنتے ہیں۔ لیکن ساڈھے چار ہزار دن گزرنے کے بعد بھی اس کیس میں ابھی تک بڑی پیش رفت نہ ہو سکی اور یہ کیس منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا۔ 50 سے زیادہ خاندان ابھی تک انصاف کی راہ دیکھ رہے ہیں مگر انہیں نہیں معلوم کہ ان کے بے گناہ پیاروں کو بے دردی سے کیوں مار دیا گیا۔
ایسے ہی ایک واقعہ 11 ستمبر 2012 کو پیش آیا۔ جب کراچی کی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں 260 مزدوروں کو آگ لگا کر زندہ جلا دیا گیا۔ اس واقعے کو 7سال 3 ماہ بیت گئے۔ 2652 دن گزر جانے کے بعد بھی یہ کیس اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا، 260 خاندانوں سے جڑے ہزاروں افراد کرب میں مبتلا ہیں اور ان کے ساتھ دردمند دل رکھنے والے لاکھوں دیگر پاکستانی بھی جو ذمہ داروں کو سزائے موت ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
کیا ماڈل ٹاؤن میں 14 افراد کو کسی نے قتل نہیں کیا؟ کیا 5 سال اور7 ماہ کسی کے قاتل کا تعین کرنے کے لیے ناکافی ہوتے ہیں؟ 2008 دنوں پر مشتمل 5سال اور 7 ماہ میں ابھی یہی بحث جاری ہے کہ ایک جے آئی ٹی کے کام مکمل کر لینے کے بعد دوسری جے آئی ٹی بن سکتی ہے یا نہیں۔ آپ کو یاد ہو گا ڈاکٹر طاہر القادری نے سپریم کورٹ میں پیش ہو کر دلائل دیے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعیدکھوسہ، جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل پانچ رکنی بینچ کے سامنے پنجاب حکومت نے نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کا وعدہ کیا۔ مگرجب یہ جے آئی ٹی بن گئی تو لاہور ہائیکورٹ نے اسے کام کرنے سے روک دیا۔ اس فیصلے کے خلاف اظہر صدیق ایڈووکیٹ اور خواجہ طارق رحیم نے سپریم کورٹ میں درخواست دی جو اب تک سپریم کورٹ میں پڑی ہے اور ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے خاندان انصاف کی راہ تک رہے ہیں۔
ایسے ہی 19جنوری 2019 ء کو ساہیوال کے قریب ایک واقعہ پیش آیا جس میں غلط فہمی کے بنیاد پر ایک خاندان کے مارے جانے کا اعتراف خود حکومت نے کیامگر کچھ عرصہ پہلے سانحہ ساہوال کے ملزمان کو عدالت نے بری کر دیا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت جسٹس آصف سعید کھوسہ بطور چیف جسٹس اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے تھے۔ کچھ لوگوں کی درخواست تھی کہ چیف جسٹس صاحب اس واقعے کا از خود نوٹس لیں مگر انہوں نے گریز کیا۔ اس کیس کے اب تک کے نتائج سے لگتا ہے کہ سانحہ ساہیوال کے دوران قتل ہونے والے خاندان کو کسی نے قتل نہیں کیا۔
نقیب اللہ قتل کیس اورسبزہ زار پولیس مقابلہ جیسے کتنے ہی کیسز ایسے ہیں جس میں مقتول کے والدین انصاف کی راہ دیکھتے دیکھتے قبروں میں جا سوئے۔ کچھ سال پہلے تک سبزہ زارمبینہ جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نوجوانوں میں سے ایک کا بوڑھا باپ لاٹھی ٹیکتے ٹیکتے ہر دوسرے چوتھے دن میرے گھر پہنچ جایا کرتا تھا۔ روز ایک نئی درخواست لکھ کر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو پوسٹ کیا کرتا تھا، مجھے اپنا غم گسار بنا رکھا تھا۔ روزانہ وہ بوڑھا مجھے کہتا امید ہے اس درخواست پر ضرور نوٹس ہو گا، مگر نوٹس ہونا تھا نہ ہوا۔ اورکچھ عرصے بعد میں اس بوڑھے کے جنازے میں شریک سوچ رہا تھا کہ اس ملک میں کتنے ہی بوڑھے انصاف لیے بغیر مر گئے، اب کچھ سال بعد نقیب اللہ کا باپ بھی اسی راہ پر گامزن ہوا۔
نیب پر روزانہ تنقید ہوتی ہے کہ ریفرنسز بنائے جاتے ہیں مگر کیسز انجام کو نہیں پہنچتے۔ چئیرمین نیب کا اس پر کہنا یہ ہے کہ ہمارا کام ریفرنس فائل کرنا ہے باقی کام احتساب عدالتوں کا ہے جہاں جا کر کیسز سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملک کی 25 احتساب عدالتوں میں 1200 سے زیادہ ریفرنسز زیر سماعت ہیں جن کے ساتھ 943 ارب روپے کی رقم جڑی ہوئی ہے۔ چئیرمین نیب کا شکوہ احتساب عدالتوں سے ہے جو سمجھتے ہیں کہ عدالتوں کے نظام میں بہتری سے نیب کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ لہذا 1200 ریفرنسز میں قوم کی نظریں عدالتوں کی طرف لگی ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ سو موٹو نوٹسز کے بجا طور پر خلاف رہے۔ لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں ادارے مضبوط نہ ہوں، انصاف کے طلب گار اپنی تو کیا انصاف کے ایوانوں کی دہلیز سے بھی مایوس لوٹ جائیں، جہاں جعلی اکاؤنٹس کا سراغ مل جانے کے بعد بھی مک مکا فارمولے کے تحت خاموشی اختیار کر کے سالہا سال تک معاملے کو لٹکا دیا جائے۔ جہاں صاف پانی بیچ کر اربوں سالانہ کمانے والی کمپنیاں ریاست کو 25 پیسے بھی ادا نہ کرنا چاہیں، جہاں پرائیویٹ اسپتالوں کا مافیا اس قدر منہ زور ہو جائے کہ صحت کے ادارے اور ریگولیٹرز بے بس ہو کر رہ جائیں، جہاں حکومتیں میرٹ کا قتل عام کرنے لگیں، جہاں ٹرانسفر پوسٹنگز سیاسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہونے لگیں اور احسن گجروں کی ریل پیل ہو۔ جہاں وزرا غریب ہمسائیوں پر تشدد کریں اور پولیس افسران پرکارروائی کے لیے دباؤ ڈالنے لگیں۔ ایسے معاشروں میں سو موٹو نوٹسز اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں چپلی کباب ازخود نوٹس کیس اور دو بوتل شراب ازخود نوٹس کیس جیسے کیسز کی وجہ سے اس رجحان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن ثاقب نثار کے لیے ہوئے کئی ازخود نوٹسز بہت اہمیت کے حامل بھی رہے۔ جعلی اکاؤنٹس از خود نوٹس کیس ان میں سے ایک ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی مدت ختم ہو رہی ہے، پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی گئی ہے، لیکن بے شمار کیسز ایسے ہیں جو برس ہا برس کے بعد بھی انجام کو نہ پہنچے اور اگلے چیف جسٹس کے دور میں داخل ہو جائیں گے، جسٹس گلزار صاحب گزارش بس یہ ہے کہ بے شمار کیسز ایسے ہیں جو معزز عدالتوں کی توجہ کے منتظر ہیں۔