عدلیہ اور مقننہ کے اختیارات اور تعلقات میں توازن کئی روز سے زیر بحث ہے۔ یہ بحث بھی زور شور سے جاری ہے کہ کہاں کہاں عدلیہ مقننہ کی حدود میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ آئینی و قانونی آرا بھی دی جا رہی ہیں اور سیاسی امور سے متعلق عدلیہ کے فیصلوں پر کہیں تنقید اور کہیں تعریف بھی ہو رہی ہے۔ گاہے یوں بھی لگتا ہے کہ عدالتیں اپنی حدود سے آگاہ ہیں تبھی فیصلے احتیاط کے ساتھ دیے جا رہے ہیں تا کہ پہلے سے جاری آئینی بحران میں مزید اضافہ نہ ہو۔
لاہور ہائیکورٹ نے اپنے تازہ فیصلے میں گورنر کو "تجویز " دی کہ وہ نو منتخب وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز کا حلف 28 اپریل کو یقینی بنانے کا انتظام کریں، خود حلف لیں یا کوئی نمائندہ مقرر کر دیں۔ اس سے پہلے وہ صدر پاکستان کو بھی ایسی ہی تجویز دے چکے ہیں جس پر عمل درآمد نہ ہوا تھا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس عدالتی حکم کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت صدر کو حکم جاری ہی نہیں کر سکتی۔
اس بار لاہور ہائیکورٹ نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے گورنر کو حکم نہیں دیا بلکہ صرف تجویز دی کہ حمزہ شہباز کا حلف یقینی بنانے کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ اس فیصلے کی تشریح قانونی ماہرین کی جانب سے یہ کی گئی کہ یہ صرف ایک تجویز یا مشورہ ہے جس پر عملدرآمد ضروری نہیں اور اگر گورنر اس تجویز کو نہیں مانتے تو ان پر توہین عدالت نہیں لگائی جا سکتی۔
قانون کے مطابق یوں بھی صدراور ان کے نمائندے گورنر کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ اگر عدالت نے انہیں واضح حکم بھی جاری کیا ہوتا تو بھی حکم عدولی کی صورت میں عدالت صدر پر توہین عدالت لگا کر انہیں جیل بھیج سکتی ہے نہ ہی انہیں ان کے عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔ صدر کو عہدے سے ہٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ صدر کا مواخذہ۔ لہذا ماہرین کی نظر میں عدالت کا یہ دائرہ اختیار نہیں بنتا کہ وہ صدر کو ہدایات یا احکامات جاری کرے۔
28 اپریل کو وزیر اعلی پنجاب سے حلف لینے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے یوں بھی ابہام پیدا کیا ہے۔ عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں عدالت کے پاس اپنے فیصلے پر عملدرآمد کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ لہذا سوال یہ بھی اٹھا کہ ایسا فیصلہ جاری ہی کیوں کیا گیا جس پر عملدرآمد یقینی بنانے کا مکمل امکان موجود نہیں ہے۔
پنجاب میں آئینی بحران سنگین ہو گیا ہے۔ گذشتہ روز بھی ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ کے لیے بلایا گیا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ معلوم نہیں یہ مسئلہ کیسے حل ہو گا۔ آنے والے دنوں میں سیاسی حالات مزید کشیدہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ گورنر وزیر اعلی پنجاب کے انتخابی عمل کو قانونی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں سمجھتے۔ تین ہفتوں سے یہاں کوئی وزیر اعلی موجود نہیں۔ یہ مسئلہ کیسے حل ہو گا، کوئی نہیں جانتا۔
سپریم کورٹ میں بھی عدلیہ اور مقننہ کے اختیارات اور حدود و قیود پر بحث اکثر و بیشتر جاری رہتی ہے۔ پچھلے دنوں ا سپیکر کی رولنگ کو غیر قانونی قرار دینے کے ازخود نوٹس کیس میں بھی عدلیہ کے فیصلے پر یہی سوال اٹھا کہ آئین پارلیمان کے امور میں عدالتی مداخلت کو روکتا ہے۔ یہاں تک کہ خود عدالت عظمٰی نے بھیA 63- کی تشریح کے لیے دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کی سماعت کرتے ہوئے ایک سے زائد مرتبہ ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو خود پارلیمان کو نمٹانا چاہیے، ہمارے پاس تشریح کے لیے کیوں آئے ہیں۔
بینچ کے معزز جج جسٹس جمال مندوخیل اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الگ الگ مواقع پر اٹارنی جنرل سے کہا اگر آپ منحرف رکن کی تاحیات نااہلی چاہتے ہیں تو پارلیمان میں قانون سازی کر کے اس کی وضاحت کر دیں۔ عدالت کو پارلیمانی معاملات میں کیوں گھسیٹنے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا قانون موجود ہے ہم تو تشریح کے لیے عدالت کے پاس آئے ہیں۔ مختصر یہ کہ عدالت کی پہلی کوشش یہی رہی کہ اسے پارلیمانی معاملات میں مداخلت نہ کرنی پڑے کیوں کہ ایسا کرنے سے فریق مخالف عدالتوں پر سیاسی انداز میں تنقید کرنے لگتا ہے جس سے معزز عدالت کی ساکھ پر حرف آتاہے۔
دوسری طرف مریم نوا زشریف نے ملک سے باہر جانے کے لیے درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی۔ معزز عدلیہ کے تین بنچز نے باری باری اس درخواست کو سننے سے معذرت کر لی۔ یہاں بھی قانونی بحث شروع ہو گئی کہ جج کن حالات میں کوئی کیس سننے سے معذرت کر سکتا ہے اور کہاں اسے انکار نہیں کرنا چاہیے۔
مریم نواز کے پاسپورٹ واپسی کی درخواست میں بظاہر تو کوئی ایسی پیچیدگی دکھائی نہیں دیتی کہ تین بنچ یکے بعد دیگرے کیس سننے سے انکار کر دیں لیکن کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور رہی ہو گی جو ہم نہیں جانتے۔ خیر غیر متوقع طور پر چوتھے بینچ کے سامنے مریم نوازکے وکیل نے پیش ہو کر پاسپورٹ واپسی کی درخواست ہی واپس لے لی۔ توقع ہے کہ شاید عید کے بعد ان کی جانب سے اس ضمن میں نئی حکمت عملی کے ساتھ پیش رفت دیکھنے میں آئے گی۔
پاکستان میں سیاسی معاملات کو اس وقت جس انداز میں چلایا جا رہا ہے ایسا شاید قیام پاکستان کے پہلے دس سال میں تواتر سے دیکھنے میں آیا ہو گا، کم از کم تاریخ پڑھ کے تو یہ مماثلت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ پھر اسی کی دہائی کے اواخر اور نوے کی دہائی میں بھی کئی بار ایسے ہی حالات پیدا ہوئے۔
ان حالات کے بعد پاکستان میں پھر جو کچھ ہوا اس کا احاطہ شیخ رشید کا یہ تازہ جملہ کرتا ہے کہ " اگر ہم نہ ہوئے تو پھر یہ بھی نہیں ہوں گے" سوال یہ کہ پھر کون ہو گا؟ پھر جو ہو گا وہ جمہوریت پسندوں کے دل پہ بہت گراں گزرے گا۔