Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Asal Faide Mein To Jahangir Tareen Rahenge

Asal Faide Mein To Jahangir Tareen Rahenge

دو دن پہلے فواد چودھری سے بات ہوئی، انہوں نے دعویٰ کیا جہانگیر ترین سے بہت جلد صلح ہو جائے گی۔ میں نے پوچھا کیا بلدیاتی انتخابات سے پہلے ہو جائے گی؟ کہنے لگے، بلدیاتی انتخابات تو بہت دور ہیں صلح تو چند روز کے فاصلے پر ہے۔ جہانگیر ترین نے بھی 15 فروری کو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری اپنی پارٹی نے بھی مجھ سے رابطہ کیا ہے، بات چیت جاری ہے۔ خود میری جہانگیر ترین سے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ ان کی گفتگو سے تاثر یہی ملتا تھا کہ وہ عمران خان سے صلح پر آمادہ ہیں۔ بلکہ یوں کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ وہ تحریک انصاف کی طرف سے ہاتھ بڑھائے جانے کے منتظر تھے۔

موجودہ حالات میں جہانگیر ترین کے لیے بہترین حکمت عملی تو یہی تھی کہ اپوزیشن سے رابطوں کے ذریعے تحریک انصاف کو تاثر دیں کہ انہیں جلد از جلد منا لیا جائے ورنہ ان کا جہاز کہیں بھی لینڈ کر سکتا ہے۔ ایسا کرنے میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے۔ اپوزیشن سے مسلسل رابطوں کی خبروں نے تحریک انصاف پر دبائو بڑھایا اور اہم پارٹی رہنمائوں نے عمران خان پر زور دینا شروع کیا کہ جہانگیر ترین سے صلح کر لی جائے۔

دوسری طرف تحریک انصاف ہی کے کچھ رہنما جہانگیر ترین سے صلح اور دوبارہ شمولیت کی ڈٹ کر مخالفت کرنے لگے۔ اخباری خبروں کے مطابق شاہ محمود قریشی اور اسد عمر وغیرہ مخالفت کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کو یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ جھکنے کی بجائے چڑھائی کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے اور اپوزیشن سے ملاقاتیں اور رابطے کرنے والے ترین گروپ کے خلاف پارٹی ڈسلپن کی خلاف ورزی کرنے پر کارروائی کی جائے۔ ذرائع کہتے ہیں، عمران خان نے تینوں دلائل توجہ سے سنے اور دورہ روس سے واپسی پر فیصلہ کرنے کا کہہ دیا۔

ادھر اپوزیشن کی تمام جماعتیں حکومت پر مسلسل دبائو بڑھانے کے لیے اپنی ملاقاتیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن تینوں ہی متحرک نظر آتے ہیں۔ اخباری خبروں کے ذریعے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پرویز الٰہی بھی ان کا ساتھ دینے پر نیم رضامند ہیں کیونکہ انہیں وزارت اعلی کی پیشکش کر دی گئی ہے۔ اپنے گزشتہ کالم میں چودھری شجاعت کی کتاب سے شریف برادران کی چودھریوں سے کی گئی وعدہ خلافیوں کا حوالہ دے کر میں نے عرض کیا تھا کہ چودھریوں کے لیے شریفوں کی پیشکش قبول کرنے کا فیصلہ آسان نہیں۔ چودھری برادران بھی اس تاثر کی نفی نہیں کر رہے کہ ان کے پاس ایسی پیشکش موجود ہے۔ ظاہر ہے پرویز الٰہی اگر اپنا ریٹ بڑھا پا رہے ہیں تو اس میں ان کا کیا نقصان ہے۔

مسلسل ملاقاتوں کے باوجود جہاں ایک طرف اپوزیشن کو ابھی تک کوئی واضح کامیابی نہیں ملی وہاں دیگر آپشنز پر بھی غور کیا جانے لگا ہے۔ مثلا ایک اخباری خبر کے مطابق مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری کی ملاقات میں صدر عارف علوی کے مواخذے کے آپشن پر بھی غور کیا گیا۔ کیا یہ کوئی آسان کام ہے؟ ایک طرف جہاں اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے سادہ اکثریت کے نمبر پورے نہیں کر پار ہی تو صدر کے مواخذے کے لیے تین چوتھائی اکثریت کہاں سے لائے گی۔ بہرحال خواب دیکھنے اور چٹخارے دار گفتگو کرنے میں بھلا کیا جاتا ہے۔

ایک خبر یہ بھی ہے کہ ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمن نے آصف زرداری کو لانگ مارچ ملتوی کرنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ چار دن باقی رہ گئے پیپلز پارٹی کی بڑے لانگ مارچ کی کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی نہ ہی ایسا کوئی ماحول نظر آتا ہے۔ خطرہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ پنجاب سے گزرے گا تو لوگ انگلیاں اٹھائیں گے اور سوال کریں گے کہ چند گاڑیوں کے قافلے سے حکومت کیسے گرے گی۔

اسی مشکل سوال کاجواب دینے سے بچنے کے لیے کافی حد تک امکان ہے کہ پیپلز پارٹی مولانا کی بات مان کر اپنی عزت بچانے میں عافیت جانے گی۔ اچھا بہانہ پیپلز پارٹی کے پاس موجود ہے کہ ہم اپنی پوری توجہ تحریک عدم اعتماد پر مرکوز کیے ہوئے ہیں اور یہ کہ ہم تحریک عدم اعتماد لانے کے بہت قریب ہیں اس لیے لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کیا ہو، ابھی تک امکان تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ لانگ مارچ نہیں ہو گا۔

اپوزیشن کے پاس تحریک عدم اعتماد لانے کے بظاہر دو ہی آپشنز ہیں، ایک چودھری پرویز الٰہی اور دوسرے جہانگیر ترین۔ اگر حکومت جہانگیر ترین سے اپنے معاملات طے کر لیتی ہے تو چودھریوں کے لیے بھی فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ویسے بھی کامل علی آغا چند دن پہلے کہہ چکے ہیں "جب تک ریاست چاہے گی ہم حکومت کے ساتھ ہیں "۔ امکان یہی ہے کہ پرویز الٰہی بغیر اشارے کے کوئی کام نہیں کریں گے اور جہانگیر ترین کے پاس بھی اگر حکومت سے صلح کا آپشن موجود ہو تو وہ کیوں اور کس لیے اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ حالیہ سیاسی شورش سے پہلے جب ڈرائنگ روم ملاقاتوں میں صحافی جہانگیر ترین سے سوال کیا کرتے تھے کہ وہ مستقبل کے لیے کیا ن لیگ جوائن کر سکتے ہیں تو وہ ہنس کر کہتے کہ آپ ہی بتائیں کہ بھلا میں ن لیگ میں جا سکتا ہوں؟

ہو سکتا ہے اپوزیشن کی طرف سے کی جانی والی اس سیاسی مشق کا یہ فائدہ تو نہ نکلے کہ وہ جہانگیر ترین اور چودھریوں کو ساتھ ملا کر تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہو جائیں، لیکن شاید یہ ضرور ہو گا کہ موجودہ حالات کے نتیجے میں جہانگیر ترین کی پی ٹی آئی سے صلح ہو جائے گی۔ اوراپوزیشن کوبھی یہ ضرور ملے گا کہ ان کے بددل کارکنوں میں ایک امید کی کرن جاگے گی اور ہو سکتا ہے کہ اس کا فائدہ انہیں آئندہ بلدیاتی انتخابات میں مل جائے۔