چودھری نثار جیت گئے، پرویز رشید ہار گئے۔ دیر سے ہی سہی چودھری نثار کے فلسفے سے اتفاق کر لیا گیا۔ بیچارے چودھری نثار کیاکہتے تھے کہ مفاہمت کے راستے پر چلے بغیر سیاسی دوام حاصل نہیں کیاجا سکتا۔ وہ کہتے تھے کہ جی ٹی روڈ کا راستہ پہلے جیل اور پھر لندن کی طرف جاتا ہے۔ وہ بعد تک کہتے رہے کہ نواز شریف مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے توآج بھی وزیر اعظم ہوتے۔ چودھری نثار کو جھٹلا دیا گیا، ان کا نقطہ ٔ نظر ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو کر جی ٹی روڈ سے لاہور آنے، جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے، بیماری کا عذاب جھیلنے اور پھر ملک بدر ہو جانے کے بعد نواز شریف اسی نتیجے پر پہنچے جس پر چودھری نثار بہت پہلے پہنچ گئے تھے مگرپرویز رشیدنے کمرے میں اندھیرا کیے رکھاتاکہ نواز شریف کو وہ راستہ سجھائی نہ دے جو چودھری نثار دکھا رہے ہیں۔
کتنی مشکل میں ڈال دیا ہے نواز شریف نے جیل کاٹنے والے احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی اور رانا ثناء اللہ کو، جو سمجھتے تھے کہ وہ کرپشن کی وجہ سے نہیں ایک نظریے کی وجہ سے جیل کاٹ رہے ہیں۔ کتنی مشکل میں ڈال دیا ہے نواز شریف نے خواجہ آصف، خرم دستگیر، مریم اورنگزیب اور پرویز رشیدکو، جو کہا کرتے تھے کہ نواز شریف ایک نظریے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کتنی مشکل میں ڈال دیا ہے نواز شریف نے اپنے ان متوالے کارکنوں کو جو جلسوں میں آ کر ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے تھے، کتنی مشکل میں ڈال دیا ہے نواز شریف نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو جو چودھری نثار کی ٹرولنگ کرتی رہی ہے۔ کتنی مشکل میں ڈال دیا ہے نواز شریف نے ان تمام پارٹی رہنمائوں کو جنہیں ٹیلیویژن پر آ کرخود سمجھ نہ آنے والا فیصلہ دوسروں کو سمجھانا پڑ رہا ہے اور کتنی مشکل میں ڈال دیا ہے نواز شریف نے خود کو جنہیں اب اپنے نظریے کی مخالف سمت میں سفر کرنا پڑ ے گا۔
مگر سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوا، اب نواز شریف ووٹ کو عزت دینے والے فلسفے کو بھول بھال کر نئے راستے پر کیوں چل نکلے؟ انہوں نے اپنے اس فلسفے کے لیے بہت سی قربانیاں دیں، ان کا ماننا ہے کہ اسی راستے پر چلنے کی وجہ سے انہیں وزیر اعظم ہائوس چھوڑنا پڑا، اسی کے لیے انہیں جیل جانا پڑا، وہ مانتے ہیں کہ الیکشن کے دوران انہیں خلائی مخلوق سے مقابلہ کرنا پڑا، وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے دوران پولیٹیکل انجینئرنگ ہوئی جس کی وجہ سے ان کی پارٹی کے لوگوں کو مخالف پارٹی میں شامل کرایا گیا، وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ الیکشن ہارے نہیں انہیں ہرایا گیا۔ وہ مانتے ہیں کہ انہیں ہار نہ ماننے کی وجہ سے جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ اب جب یہ سب ہو گیا تو کیوں نواز شریف اپنا راستہ چھوڑ کر نئے راستے پر چل نکلے ہیں۔ انہوں نے وہ راستہ کیوں چھوڑ دیا جس پر ان کی، ان کے خاندان اور ان کے سیاسی ساتھیوں کی لازوال قربانیوں کی بے مثال داستانیں رقم ہیں۔ انہوں نے وہ راستہ کیوں چھوڑ دیاجس پر ان کی مرحوم اہلیہ نے تن تنہا زندگی کی آخری سانسیں لی تھیں۔ کیا نواز شریف نے ہتھیار ڈال دیے ہیں؟ کیا نواز شریف نے سمجھوتہ کر لیا ہے؟
یہ پہلی بار نہیں ہے جب نواز شریف نے سمجھوتہ کرنے میں عافیت محسوس کی ہے۔ پہلی بار یہ تب ہوا جب ضیاء الحق نے نواز شریف کو پہلی دفعہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا۔ وزیر اعلیٰ بنے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ نواز شریف کو محسوس ہونے لگا وہ حقیقی وزیر اعلیٰ ہیں اور یہ کہ وہ ضیاء الحق کی مہربانی سے نہیں بلکہ اپنے بل بوتے پر وزیر اعلیٰ بنے ہیں اور یہ کہ انہیں آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اقدامات کر سکیں اور کچھ ہی عرصے میں انہوں نے ضیاء الحق کو "نو" کہنا بھی سیکھ لیا۔ ضیاء الحق اس پر بہت مضطرب ہوئے، انہوں نے پیر پگارا کو بلایا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ پیرپگارا نے کہا آپ پریشان نہ ہوں میں کچھ کرتا ہوں۔ پیر پگارا نے ملتان کے یوسف رضا گیلانی کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا پنجاب کے دورے پہ نکلو، اپنے لیے حمایت اکٹھی کرو، میں تمہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا رہا ہوں۔ یوسف رضا گیلانی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے مشن پر نکلے۔ پیر پگارا نے راولپنڈی میں بیٹھ کر اپنا جادو بھی چلانا شروع کیا، دیکھتے ہی دیکھتے نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ماحول بن گیا۔ یوسف رضا گیلانی کو چند ہی دن میں قابل ذکر کامیابیاں ملیں اور نواز شریف کو اپنی وزارت اعلی ختم ہوتی صاف نظر آنے لگی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب نواز شریف نے فورا ہتھیار ڈالنے اور سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ راولپنڈی جا کر ضیاء الحق سے ملے، معافی تلافی ہوئی اور نواز شریف اچھے بچے بن گئے۔ اس کے بعد ضیاء الحق لاہور آئے اور وہ تاریخی جملہ کہا جو آج بھی سیاسی تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ "نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے"۔ یہی وہ موقع تھا جب پیر پگارا نے کہا تھا کہ "نواز شریف کی بوری میں سوراخ تھا، میں نے اس کی سلائی کر دی ہے"۔
دوسری مرتبہ یہ تب ہوا جب نواز شریف جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کشیدگی کو اس حد تک لے گئے کہ ددنوں میں سے کسی ایک کے گھر جانے کی نوبت آگئی۔ نواز شریف نے پرویز مشرف کو گھر بھیجنے کی کوشش کی مگر پرویز مشرف نے نواز شریف کو گھر بھیج دیا۔ نواز شریف سے کہا گیا وہ اسمبلیاں توڑنے کے کاغذ پر دستخط کر دیں۔ انقلابی نواز شریف نے انکا ر کر دیااور جیل جانے کو ترجیح دی مگر کچھ ہی عرصے بعد ہتھیار ڈال کر سمجھوتہ کر لیا اور ملک سے باہر چلے گئے۔ ان کے نظریے کے لیے قربانی دینے والے کارکن سوال کرتے رہے کہ ہمیں بیچ چوراہے میں چھوڑ کر آپ غائب کیوں ہو گئے۔ ہم جو آپ کے نظریے سے جڑے تھے اب کیا کریں۔
اب تیسری بارنواز شریف کے ساتھ سڑکوں پر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے تذبذب کا شکار ہیں۔ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کہانی نے کیا موڑ لے لیا ہے، نواز شریف پرویز رشید کے ساتھ کھڑے ہیں یا چودھری نثار کو یاد کر رہے ہیں۔ کیا نواز شریف سمجھتے ہیں کہ چودھری نثار ٹھیک کہہ رہے تھے اور یہ کہ انہوں نے چودھری نثار کے ساتھ زیادتی کی۔ کیا نواز شریف کو شہباز شریف نے قائل کر لیا ہے؟ شیخ رشید اکثر کہتے ہیں میری اور شہباز شریف کی پارٹی ایک ہی ہے، تو کیا اب شیخ رشید، شہباز شریف اور نواز شریف تینوں کی پارٹی ایک ہی ہے؟ کیا نواز شریف نے پارٹی بدل کر شہباز شریف کی پارٹی کو جوائن کر لیا ہے؟