اساتذہ کہتے ہیں اپنے بارے میں کالم نہیں لکھنا چاہیے، پڑھنے والوں کو ہمارے مشاغل میں کیا دلچسپی ہو گی، یوں بھی ہمارے قارئین کو سیاست کا ایسا چسکا لگا ہوتا ہے کہ وہ کچھ اور سنناپڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے جب سیاسی موضوعات پہ لکھنے والوں کا ان بکھیڑوں میں پڑنے کا دل نہ چاہ رہا ہو تو زیادہ سے زیادہ وہ کسی کتاب پر اپنی رائے کا اظہار کر دیتے ہیں یا اپنے کسی تازہ سفر کی روداد سنا دیتے ہیں لیکن اپنے ذاتی مشاغل کے بارے میں لکھنے کا حوصلہ کوئی کم ہی کرتا ہے کہ شاید قاری کی طرف سے اسے پزیرائی نہیں ملتی۔ اس لیے میں ابتداء میں ہی وضاحت کیے دیتا ہوں کہ جسے میرے ذاتی مشاغل میں دلچسپی نہ ہو وہ یہ تحریر پڑھ کے وقت ضائع نہ کرے اور یہی سمجھے کہ میں نے یہ اپنے پڑھنے کے لیے ہی لکھا ہے۔
انسان کوئی مشین تھوڑا ہی ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے، ہر وقت ٹیلی ویژن، خبریں، پریس کانفرنسیز، ٹاک شوز، ٹویٹر، الزامات، لڑائی جھگڑا، عدالتی معاملات اور ایسی کئی چیزیں ہیں جن میں ہر وقت مبتلا رہ کر انسان اکتا جاتا ہے، ایسے میں اگر دیگر مصروفیات میں دھیان نہ بٹائے تو انسان کیا دیوانہ ہو جائے؟ یہی وجہ ہے کہ دل بہلانے کے لیے میں نے کئی دھندے پال رکھے ہیں، سب سے اعلی مصروفیت تو دوستوں کے ساتھ بیٹھک ہے، رات ہوتی ہے تو سردیوں میں میرے گھر کی چھت پہ آتش دان سلگنے لگتا ہے، لکڑیاں آگ پہ جلتی ہیں گویا غم جلتے ہیں۔ آگ کی گرمی اور دوستوں کی محفل سے پریشانیاں اور ڈپریشن دور بھاگتاہے، ٹھٹھے لگتے ہیں تو طبعیت کوتروتازگی ملتی ہے، مزاج میں خوش گواریت پیدا ہوتی ہے اور اگلے دن کے کام کے لیے خوب سی توانائی جمع ہو جاتی ہے۔ یوں دوستوں کی میزبانی پہ چند ہزار روپے خرچ کر کے میں ڈاکٹرز کی ہزاروں روپوں کی فیسوں اور دوائوں سے محفوظ رہتا ہوں۔
دوستوں کی اچھی میزبانی کی خاطر گھر میں تندور بنا رکھا ہے، بڑی بڑی بار بی کیو انگیٹھیاں اور قیمہ بنانے والا بڑاسا توا موجود ہے، تندور میں طرح طرح کی ڈشیں تیار ہوتی ہیں، چکن سجی، ران روسٹ، دم پخت اور نہ جانے کیا کیااور ساتھ میں گرماگرم روٹیاں بھی۔ مٹی کے اس تندور میں لکڑیوں کی خوشبو کی آمیزیش سے تیار ہونے والے کھانے کا ذائقہ چولھے پر بننے والے ذائقے سے کہیں مختلف ہوتا ہے۔ احباب کی مہربانی ہے کہ وہ وقت نکال کے میرے غریب خانے پہ جمع رہتے ہیں اور سیاسی و غیر سیاسی گفتگو سے سماں باندھے رکھتے ہیں، شاعری اور موسیقی کی محفلیں بھی وقتا فوقتا برپا ہوتی رہتی ہیں جس سے سردیوں کی شام اور سہانی ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی ایک محفل اگلے چار روز دن رات کام کرنے کے لیے توانائی فراہم کرتی ہے۔
رنگوں میں قدرت نے عجب سکون مہیا کر رکھا ہے۔ مختلف طرح کے رنگ جمع ہو کر ایک ساتھ آنکھوں میں اترتے ہیں تو ڈپریشن دور بھاگتا ہے۔ تبھی تو کہا جاتا ہے ڈپریشن ختم کرنے کے لیے بازار جائیں اورشاپنگ یا ونڈو شاپنگ کریں، دکانوں پر مختلف رنگوں کے کپڑے جب عکس بن کر آنکھوں میں اترتے ہیں تو طبیعت کو تروتازہ کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی پینٹنگ کا شوق ہے۔ میں نے اپنے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ اگر کینوس پہ مختلف رنگ بکھیر کے برش کے کچھ بے ترتیب سٹروک بھی لگائیں جائیں تو کینوس پہ رنگوں کی ایک ایسی ترتیب ابھرتی ہے کہ دیکھنے والا اپنی مرضی کی شکلیں بناتا رہ جائے۔ اکثر اوقات یہ بے ترتیبی کسی ترتیب سے زیادہ پر کشش معلوم ہوتی ہے۔ کینوس، برش اور رنگوں کے ساتھ گزارے گئے چند لمحے انسان کو پرسکون کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اسے "کلر تھراپی" بھی کہتے ہیں۔ تجربہ کر کے دیکھئے، بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کی گئی یہ سرگرمی آپ کو بہت مفید معلوم ہو گی۔
رنگوں کی بھی اپنی ایک دنیا ہے، ہر رنگ کی الگ خصوصیت ہے اور آپ کی شخصیت پہ الگ الگ رنگ الگ الگ انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسے کینوس پہ سرخ، پیلا اور نیلا رنگ غضب ڈھاتے ہیں ایسے ہی پودوں کا ہرا رنگ آنکھوں میں اترتے ہی ساری تھکاوٹ جڑ سے کھینچ لیتا ہے۔ اسی غرض سے میں نے اپنے گھر کی چھت پہ چھوٹا سا کچن گارڈن بنا رکھا ہے۔ لاہور جیسے بڑے شہروں میں گھر چھوٹے ہوتے ہیں، دس مرلے کے ایک گھر میں سبزیاں اگانے کی کچی جگہ تو بمشکل دستیاب ہوتی ہے مگر تھوڑی سے محنت اور لگن سے کیاریوں اور گملوں میں اچھی خاصی سبزی اگائی جا سکتی ہے۔ لہذا میں بھی سردیوں میں میتھی، پالک، مٹر، لہسن، شلجم، مولی وغیرہ اپنے گھر سے ہی حاصل کرتا ہوں اور گرمیوں میں ہرے ہرے ٹینڈے، کریلے اور بھنڈی خوب مزے سے کھاتا ہوں۔ کھانے کا لطف تو الگ ہے، صبح سویرے پودوں کودیکھنے، دیکھ بھال کرنے، انہیں پانی دینے، پودے اور پھل کو بڑا ہوتے دیکھنے سے ہی بہت لطف ملتا ہے۔
شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک تو ٹاک شوز دیکھنا پیشے کی مجبوری ہے۔ لیکن رات گیار ہ سے ایک بجے تک کا وقت کتاب پڑھنے یا فلمیں اور اچھے ڈرامے دیکھنے کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ ارتغرل ہو یا کورلوس عثمان، منی ہائیسٹ ہو یا گیم آف تھرونز۔ بہت سی اعلی پائے کی سیریز دیکھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ویسے ہر طرف دھوم ہونے کی وجہ سے "پری زاد" اور "صنف آہن " بھی دیکھا۔ عمیرہ احمد کاقلم تو شاندار ہے ہی، ہاشم ندیم نے بھی اچھے جملے تخلیق کیے۔ عام طور پر لوگوں کو کہانی میں دلچسپی ہوتی ہے مجھے لکھاری کے جملے نہال کرتے ہیں۔ ہاشم ندیم نے پری زاد کے لیے بہت سے شاندار جملے تخلیق کیے جیسے خلیل الرحمن قمر نے " میرے پاس تم ہو "کے لیے کیے تھے۔
زندگی اچھی گزر رہی ہے، ایک چیز سے بہت خوف آتا ہے اور وہ بیماری ہے۔ صحت کا کوئی نعم البدل نہیں۔ بیماری بے بسی کا دوسرا نام ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ بیماری اور تنگدستی سے سب کوبچائے رکھے۔ آمین