Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Dhelay Ki Corruption

Dhelay Ki Corruption

اس ملک میں ایسے کئی خوش نصیب ہو گزرے ہیں جو دھیلا جیب میں لیے بغیر نوکری کرنے پہنچے اور انہیں کمپنیوں کا مالک بنا دیا گیا۔ کئی ایسے بھی ہیں جو کام تودھیلے کا نہیں کرتے مگر ان کا ریکارڈ دیکھ لیں تو اربوں کی ٹرانزیکشنز قوم کے ان دانشوروں کو منہ چڑا رہی ہوتی ہیں جن کا فلسفہ ہے کوئی کھاتا ہے تو کیا، لگاتا بھی تو ہے۔ تو آیئے آج آپ کو ان خوش نصیب کرداروں سے ملواتے ہیں جنہوں نے خالی ہاتھ سلطنت شریفیہ میں قدم رکھا اور اب اربوں کا ہیر پھیر ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ -

1 نثار احمد گل:شریف خاندان کے سپوتوں کے بعد اس دھندے کا سب سے اہم کردار ہے نثار احمد گل۔ یہ یوں تو وقت کے وزیر اعلی شہباز شریف کا پولیٹیکل ڈائریکٹر تھامگر سیاسی امور سر انجام دینا اس کی ذمہ داری تھی نہ ہی یہ کام اسے آتا تھا۔ نثار گل ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی GNC یا گڈ نیچر کمپنی کا مالک تھا۔ یہ کمپنی اتنی ورتھ کی حامل تھی کہ ایک نجی بینک سے 900 ملین روپے کا قرضہ حاصل کر سکتی تھی۔ مگر پھر بھی اس کمپنی کے مالک نے چند ہزار روپے پر شہباز شریف کے پاس نوکری کر رکھی تھی۔ ددنوں کے درمیان دوستی اتنی گہری تھی کہ جب گڈ نیچر کمپنی کو ایک نجی بینک سے 900 ملین روپے کا قرضہ لینے کی ضرورت پڑی اور بینک اتنی بڑی رقم کا قرضہ دینے پر ہچکچا رہے تھے تو شریف فیملی کی رمضان شوگر مل گارنٹر بن کر میدان میں آگئی۔ یوں شہباز شریف کی مدد سے گڈ نیچر کمپنی900 ملین کا قرضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اب چند ہی دن گزرے تھے کہ شہباز شریف صاحب کو اپنی اہلیہ تہمینہ درانی کے لیے Whispering Pinesکے دو ولاز خریدنے کی ضرورت پڑی۔ ان دنوں شہباز شریف کا ہاتھ کچھ تنگ تھا۔ انہوں نے اپنے اسی ملاز م نثار گل سے کہا کہ انہیں ولاز خریدنے کے لیے پیسیوں کی ضرورت ہے۔ نثار گل نے فورا ہامی بھر لی اور تین قسطوں میں حاصل کیا گیا 900 ملین کا قرضہ 6 قسطوں میں شریف فیملی کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیاجس سے ولا نمبر 19 اور کاٹیج منبر 23 خرید لیا گیا۔ نثار گل کی اتنی بڑی قربانی کے باعث یہ شریف فیملی کے اتنا قریب آ گیا کہ سلمان شہباز غیر ملکی دوروں پراسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ لیکن صرف انہی ملکوں میں لے جاتے جہاں جہاں سلمان اور حمزہ کی کاغذی کمپنیوں کے دفاتر قائم تھے۔ ایسے پانچ دوروں کی تفصیلات کسی نیب نامی ادارے کے پاس موجو د ہیں۔

-2 ملک علی احمد :ملک علی احمد شہباز شریف کا دوسرا قریب ترین ساتھی تھا۔ الزام لگانے والے اس بیچارے کو بھی منی لانڈرنگ کے دھند ے سے جوڑ رہے ہیں حالانکہ یہ وزیر اعلی شہباز شریف کے ڈائریکٹر برائے سٹریٹیجی اینڈ پالیسی کے عہدے پر فائز تھا۔ وہ الگ بات کہ اس نے اپنی شب و روز کی محنت شاقہ سے ایک اپنی کمپنی بنا لی تھی۔ وہی گڈ نیچر کمپنی جس کا یہ دوسرا ڈائریکٹر تھا۔ ملک علی احمد نثار گل کے ساتھ دن بھر محنت کرتا، اپنی کمپنی کی طرف سے شریف فیملی کے کس فرد کو کتنی رقم ادھار دی ہے، اس سب کا حساب رکھتااور اپنی کمپنی کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا تھا۔

-3 مسرور انور:یہ شخص یوں تو شریف گروپ کے ہیڈ آفس 55-K ماڈل ٹائون میں ملازم ہے لیکن دن بھر پیسوں میں کھیلتا ہے۔ اسے لاکھوں یا کروڑوں کی گنتی سمجھ نہیں آتی، یہ ملین اور بلین میں ڈیل کرتا ہے۔ زیادہ پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے اسے اور اس کی ٹیم کو کیش بوائز کہہ کر پکارا جاتا ہے لیکن ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اپریل 2017 ء میں 16.3 ملین روپے جو گڈ نیچر کے اکائونٹ سے شہباز شریف کے اکائونٹ میں آئے وہ مسرور انور نے ہی تو جمع کرائے تھے۔ اس کے بعد اگلی رقم کی تین چار قسطیں لانے والا شخص بھی یہی تھا۔

-4 شعیب قمر:شعیب قمر کی ذمہ داریاں بھی کچھ اسی نوعیت کی تھیں۔ 28 اکتوبر 2016 ء کو 25 ملین روپے حمزہ شہباز کے اکائونٹ میں جمع کرائے گئے جو حمزہ کی بینک سٹیٹمنٹ میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر اسی مہینے میں 19.75 ملین روپے حمزہ کے اکائونٹ میں آئے، یہ رقمیں شعیب قمر نامی کیش بوائے ہی ان اکائونٹس میں جمع کراتا رہا۔ یہی وہ رقم ہے جس کے پے آرڈر بنوا کر PP-114 کے سابق ایم پی اے وسیم قادر کو دیے گئے اور اس سے جوہر ٹائون میں پلاٹ نمبر 61-A، 62 اور 63 خریدے گئے۔

-5ملک مقصود:ملک مقصود یوں تو شریف فیملی کی کمپنیوں کے ہیڈ آفس 55-K ماڈل ٹائون میں چپڑاسی کی نوکری کرتا تھا۔ لیکن پھر قسمت ایسی کھلی کہ وہ مقصود اینڈ کمپنی کا مالک بن گیا یا بنا دیا گیا۔ حاسدین کہتے ہیں کہ یہ شریف فیملی کی فرنٹ کمپنی ہے جس کے اکائونٹ میں گڈ نیچر کمپنی کے طرف سے بالواسطہ طور پر کروڑوں روپے جمع کرائے گئے۔

-6 طاہر نقوی:شعیب قمر نے انکشاف کیا تھا کہ کک بیکس سے جو بھی رقوم حاصل ہوتیں وہ شہباز شریف کے گھر 96-H ماڈل ٹائون میں اکٹھی کی جاتیں۔ یہ وزیر اعلی کا کیمپ آفس بھی تھا۔ یہاں پر رقوم بوریوں میں بھر کر رکھی جاتیں اور پھر جو شخص ان رقوم کے لے کر اپنی نگرانی میں 55-K تک لے کر جاتا اس شخص کا نام طاہر نقوی تھا۔ گویا طاہر نقوی کالے پیسے کو گھر سے آفس تک لے جانے کے عمل کا انچارج مقرر تھا۔

-7 قاسم قیوم :جب کک بیکس کی تمام رقم بوریوں میں بھر کر55-K منتقل کر دی جاتی تو وہاں پر جو لڑکے اس رقم کو گننے کا کام کرتے ان کے انچارج کا نام قاسم قیوم تھا۔

-8، 9 محبوب علی اور منظور احمد:نیب کے پاس تقریبا ڈیڑھ درجن سے زائد دستاویزات موجو د ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ حمزہ اور سلمان شہباز کو جو رقوم برطانیہ اور متحدہ عرب امارت سے موصول ہوتیں وہ محبوب علی اور منظور احمد نامی شخصیات بھیجا کرتیں۔ اس کے لیے وہی منی ایکسچینج کمپنیاں استعمال ہوئیں جو جعلی اکائونٹس کیس میں بھی سامنے آئی تھیں۔

-10 نوید اکرام:نیب کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ شہباز شریف کے داماد علی عمران کے اکائونٹ میں آنے والی 120 ملین پائونڈ کی رقم جس شخص نے بھجوائی اس کا نام نوید اکرام ہے۔ علی عمران اس رقم کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دے سکے۔ بات وہی ہے کہ مجھ پر دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو میرا نام بدل دیجے گا۔