خبر یہ ہے کہ اپوزیشن نے اسٹیبلشمنٹ کوپیغام بھجوایا ہے اگر تین مہینے کے اندر انتخابات کرانے کی ضد کی گئی تو ملک کی دس بڑی جماعتیں انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر دیں گی۔ حل مگر کیا ہے؟ کیا نئے انتخابات کے علاوہ بھی کوئی حل موجود ہے؟ معاملہ سپریم کورٹ سے دوبارہ پارلیمنٹ کے پاس آئے یا سیدھا الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے، ہونے تو انتخابات ہی ہیں اور کیا اپوزیشن بھی یہی نہیں چاہتی تھی؟
تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے تین دن پہلے ہی ن لیگ کی طرف سے افسران کی فہرستیں بنائی جا رہی تھیں، کسے چیف سیکرٹری لگانا ہے اور کسے کس محکمے کا سیکرٹری۔ کون کون سے ڈپٹی کمشنرز تبدیل کرنے ہیں، کن کن کو بلوچستان سے واپس لانا ہے اور کن افسران کو بلوچستان کے آخری ڈسٹرکٹ میں چھوڑ کر آنا ہے۔ نہایت سرعت کے ساتھ فہرستیں مکمل کی جا رہی تھیں۔
اوورسیز پاکستانی کے ووٹ کا حق ختم کرنے کے منصوبوں کو حتمی شکل دی جا رہی تھی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے خاتمے کا بل تیار کیا جا رہا تھا۔ کیوریٹو ریویو(Curative Review) کی درخواست واپس لینے کے منصوبے بنا لیے گئے تھے۔ نواز شریف کی واپسی اور پھر سیاست میں واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری قانون سازی پر تیزی سے کام ہو رہا تھا۔ نیب اور ایف آئی اے عدالتوں میں چلنے والے کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری اقدامات کو حتمی شکل دی جا رہی تھی کہ ایسے میں عمران خان نے اسمبلیاں توڑ دیں۔
اپوزیشن کیا چاہتی ہے۔ اپوزیشن بھی انتخابات ہی چاہتی ہے لیکن اس کی خواہش ہے کہ اسے چاہے دو مہینے کے لیے ہی صحیح، حکومت دے دی جائے تاکہ وہ اگلے الیکشن میں اترنے سے پہلے مندرجہ بالا تمام ضروری امور کو تسلی بخش طریقے سے سر انجام دے لیں اور انہیں اگلا الیکشن جیتنے میں خاص دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عمران خان نے اپوزیشن کے خاکوں میں رنگ بھرنے سے انکار کرتے ہوئے ان کے منصوبوں پر پانی پھر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کو گھر بھیج کر بھی خوش نہیں اور سپریم کورٹ کے دروازے پرجا کھڑی ہوئی۔
وطن عزیز میں غداری کا نعرہ ایک بار پھر بلند ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف عالمی سازش کے بیانیے پر اپنے کارکنوں کو متحرک کر رہی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ اس کے پاس بطور ثبوت موجود ہے۔ اپوزیشن پر دبائو بڑھنے لگا ہے۔ ہر دو گھنٹے بعد اپوزیشن کے مختلف رہنمائوں کو ٹی وی پر آ کر پریس کانفرنس میں وضاحتیں کرنا پڑ رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو بار بار گواہی دینے پر اکسایا جا رہا ہے۔ سیاست میں تنائو اس وقت عروج پر ہے۔ عمران خان الگ کھڑے ہیں، اپوزیشن کی تمام جماعتیں ان کے مد مقابل ہیں، اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کی حالیہ سیاسی چالوں اور کھیلے جانے والے کارڈز سے خوش دکھائی نہیں دیتی۔
خبر یہ ہے کہ اپوزیشن نے اسٹیبلشمنٹ کوپیغام بھجوایا ہے اگر تین مہینے کے اندر انتخابات ہوئے تو ملک کی دس بڑی جماعتیں انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر دیں گی۔ عمران خان کارڈ پہ کارڈ کھیل رہے ہیں، دبائو میں آ کر اسمبلیاں انہوں نے توڑ دیں اس سے زیادہ جھکنے کو وہ تیار نہیں۔ اپوزیشن بھی اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھا رہی ہے اور مقتدرہ پریشان ہے کہ کرے تو کیا کرے۔
بیشک عمران خان سے بھی بہت سے غلطیاں سر زد ہوئی ہیں۔ حد سے زیادہ خود اعتمادی ہر گزرتے دن کے ساتھ انہیں دلدل کی طرف لے جاتی رہی مگر وہ بے خبر رہے۔ پنجاب میں حالات ان کے قابو میں نہ تھے۔ علیم خان کے اندر لاوا پک رہا تھا عمران خان اس سے بے پروا رہے، جہانگیر ترین سے صلح کے لیے انہیں بار بار پیغام دیا گیا لیکن وہ ضد پہ اڑے رہے۔
ان کا خیال تھا کوئی ان کا متبادل نہیں ہے۔ لیکن اب خود انہوں نے تسلیم کیا کہ ساڑھے تین سال میں بے شمار غلطیاں ان سے سر زد ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود خوش قسمت ہیں کہ تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود انہیں خارجہ پالیسی اور غیرت و حمیت کے نام پہ ایک ایسا موضوع میسرآیا ہے جس کی وجہ سے ان کے ناراض کارکن بھی دوبارہ انہی کے لیے نعرے لگانے پہ آمادہ ہیں۔
اب پاکستانی عوام کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے اور اسی سوال کے جواب پر سب کی نظریں لگی ہیں کہ سپریم کورٹ سے کیا فیصلہ آ سکتا ہے۔ میرے نزدیک چار امکانات موجود ہیں۔ ایک، آئین کے آرٹیکل 69 کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ پارلیمان کے امور میں مداخلت سے معذرت کر لے۔ دوئم، سپریم کورٹ ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے دی گئی رولنگ کو خلاف ضابطہ تو قرار دے مگرآرٹیکل 69 کی وجہ سے کوئی احکامات جاری نہ کرے۔
سوئم، عدالت تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کی بنیاد بننے والی مبینہ بین الاقوامی سازش کی تحقیقات کا حکم دے اور اس سلسلے میں کوئی کمیشن بنا دے یا ایگزیکٹو کو ایسا کوئی کمیشن بنانے کی سفارش کر دے۔ اور چہارم، ممکن ہے کہ سپریم کورٹ اسپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ کو رول بیک کر کے معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ کے پاس بھجوا دے۔
پچھلے چند دن میں پاکستان میں سیاسی معاملات اتنے بکھرگئے ہیں کہ انہیں اگر فورا نہ سمیٹاگیا تو اس کے دوررس منفی نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ تباہ حال ہے۔ معیشت دوراہے پر کھڑی ہے۔ ملک مزید عرصہ بے یقینی کا شکار رہنے کامتحمل نہیں ہو سکتا۔ ملک کے تمام بڑے، ذمہ دار اور طاقتور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس بکھیرے کو سمیٹنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انائوں کے بتوں کو توڑیں، زمین پر آئیں، حالات کی سنگینی کا ادراک کریں اور نگران حکومت بنوا کر جلد از جلد ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالیں۔