Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hukumat Aur Opposition Kathin Raste Par

Hukumat Aur Opposition Kathin Raste Par

پاکستان تحریک انصاف نے اپنا راستہ چن لیا ہے۔ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے بعد میدان حکومتی اتحاد کے لیے کھلا چھوڑ دینا آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اتوار کی رات کو ہونے والے مظاہروں نے غالبا انہیں بڑا قدم اٹھانے کا حوصلہ فراہم کیا اور ان کے لیے اسمبلیاں چھوڑ کر عوام میں جانے کے فیصلے میں مدددی۔

اس سے آگے کا راستہ جہاں نئی حکومت کے لیے کٹھن ہے وہیں سڑکوں پہ نکلنے والی تحریک انصاف کے لیے بھی آسان نہیں۔ عمران خان کو دبائو بڑھانے کے لیے شاید خیبرپختونخوا کی اسمبلی تحلیل اور باقی اسمبلیوں سے مستعفی ہونا پڑے۔ ایسے میں یہ خدشہ موجود رہے گا کہ اگر حکومت نے ان نشستوں پر ضمنی انتخاب کرانے کا فیصلہ کر لیا تو تحریک انصاف پاکستان کی تمام اسمبلیوں سے باہر ہو جائے گی اور اسے اپنا سیاسی کردار صرف اور صرف سڑکوں پر ادا کرنا ہو گا۔

حیران کن طور پر عمران خان کو ان کے حالیہ اقدامات کے باعث بھرپور عوامی تائید حاصل ہوئی ہے جو بہت سے حلقوں کے لیے غیر متوقع ہے۔ آج سے چند ہفتے پہلے عمران خان کو مہنگائی اور بیڈ گورننس کے باعث شدید عوامی دبائو اور غصے کا سامنا تھا۔ لیکن چند ہی ہفتوں میں انہوں نے نہایت کامیابی سے قوم کو ایک نیا موضوع دے کر عوام کی توجہ پرانے موضوعات سے ہٹا دی ہے۔

اب حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ عوام مہنگائی کو بھول بھال کر خودداری، حمیت اور قومی غیرت کا گیت گاتے نظر آتے ہیں۔ مگر کیا عمران خان اگلے انتخابات تک اس موضوع کو زندہ رکھ پائیں گے؟ یہی سب سے بڑا سوال ہے اور ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی۔

شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی نئی حکومت کے سامنے بھی گوں نہ گوں چیلنجز سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ پہلا چیلنج تو یہی ہے کہ تحریک انصاف کے استعفے قبول کرنے ہیں یا نہیں۔ اگر استعفے قبول کر لیے گئے تواپوزیشن کے بغیر اسمبلی اپنی اخلاقی اہمیت کھو سکتی ہے۔ دس جماعتوں کی اتحادی حکومت کو کامیابی سے چلانا دوسرا بڑا چیلنج ہے۔

قدم قدم پرمشکلات آئیں گی، فرمائشیں ہوں گی، کوئی ایک وزارت مانگے گا تو کوئی دوسری۔ ایک اتحادی صدر بننا چاہے گا اور دوسرا اسپیکر۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دو اتحادی ایک عہدے کے لیے آپس میں لڑنے لگیں۔ وزارتوں کی یہ بانٹ کامیابی سے مکمل ہو جانے کے بعد دوسرے مسائل سر اٹھائے کھڑے ہوں گے۔

شہباز شریف مرضی کی تعیناتیاں کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد انتخابی اصلاحات حکومت کی توجہ کا مرکز رہیں گی جن میں ای وی ایم کا خاتمہ اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے کا معاملہ سرفہرست ہو گا۔ اس کے بعد نیب کے ناخن کاٹنے ہوں گے۔ خود وزیر اعظم پر ایف آئی اے میں 16 ارب کی منی لانڈرنگ کا کیس اور نیب میں تین الگ ریفرنسز پر سماعت چل رہی ہے۔ ایف آئی اے اور نیب کو راہ راست پر لانا نئی حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہو گی۔

یہ سب کر لینے کے بعد ثانوی حیثیت کی حامل چیزوں پر بھی توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔ معیشت، جس کی بنیاد پر اپوزیشن نے تحریک چلائی اور حکومتی بنچوں پر براجمان ہوئی، کی خرابیوں کو ہنگامی بنیادوں پر ٹھیک کرنا ہو گا۔ اس کے لیے حکومت کو فوری طورپر کئی اقدامات کر نا ہوں گے۔ پیٹرول کی قیمتوں کو 27روپے لیٹر تک بڑھانا بھی انہی میں سے ایک ہے۔ بجلی کی قیمتوں کو بھی بڑھانا پڑے گا۔

یہ غیر مقبول فیصلے ہیں مگر ان کے بغیر شاید حکومت آگے نہ بڑھ پائے اوریہ قدم اٹھانے کا اشارہ ن لیگ کے زعما حکومت میں آنے سے پہلے ہی دے چکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت کو ناراض اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد بھی جیتنا ہو گا۔ یقینی بنانا ہو گا کہ وہ زر مبادلہ پاکستان بھیجتے رہیں۔ پاکستان کی ایکسپورٹس کو بڑھانا ہو گا اور عوام دوست بجٹ دے کر عوام کے دل جیتنے کی کوشش کرنا ہوگی۔

اس کے بعد نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنا بھی نئے وزیر اعظم کی اہم ذمہ داری ہو گی جو اب حکومت میں آنے کے بعد زیادہ مشکل کام نہیں رہا۔ امید ہے کہ دیگر حکومتی جماعتیں بھی اس مشن میں ان کا بھرپور ساتھ دیں گی۔

چند ایسے منصوبے بھی ہیں جن کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگے ہیں۔ معلوم نہیں ہیلتھ کارڈ کا مستقبل کیا ہو گا۔ چند اخباری رپورٹس کے مطابق غیر یقینی کا شکار ہو کر کچھ اسپتالوں نے ہیلتھ کارڈ پر علاج پہلے ہی بند کر دیا ہے۔ اسی طرح احساس پروگرام کا کیا ہو گا، معلوم نہیں۔ وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا پروگرام اب نئی حکومت کے فیصلے کا منتظر ہو گا۔ پناہ گاہیں اور لنگر خانے شاید چلتے رہیں کہ انہیں بند کرنا اتنا آسان نہیں نہ ہی چلائے رکھنا مشکل ہے۔ ہیلتھ کارڈ اگر چلتا بھی رہا تو اس کا رنگ ضرور بدل دیا جائے گا۔ سرخ انقلابی رنگ تبدیل کر کے اسے شاید سبز ہلالی رنگ اوڑھا دیا جائے۔

نئی حکومت بنتے ہی اگلے انتخابات کا کائونٹ ڈائون بھی شروع ہو گیا ہے۔ ان انتخابات کی توقع چھ سے آٹھ مہینے میں کی جا سکتی ہے۔ انتخابات میں جانے کے لیے حکومت کو اپنے دامن پہ لگے غداری اور غیر ملکی سازش کے داغ کو دھونا ہو گا۔ بھکاری کے طعنوں سے جان چھڑانا ہو گی۔ دوسری طرف عمران خان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ اگر اگلا الیکشن غیرت و حمیت کے نعرے پہ لڑنا ہے تو اسے مسلسل عوام کا نعرہ بنائے رکھنا ہو گا۔ اگر چند ماہ میں عوام یہ نعرہ بھول کر واپس مہنگائی اور گورننس کے موضوع پر الیکشن لڑنے پر آمادہ ہوئے تو شاید انہیں اتنا فائدہ نہ ہو۔

جنگ شروع ہو چکی ہے۔ پیچھے ہٹنے کا راستہ کسی کے پاس نہیں۔ ثابت قدمی جیت دلا سکتی ہے اور پائے استقامت میں لغزش لمبے عرصے کے لیے اقتدار سے باہر کر سکتی ہے۔ سوچ سمجھ کے قدم اٹھانے ہوں گے۔