2007 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ وکلا تحریک اپنے عروج پر تھی، سیاسی درجہ حرارت حدوں کو چُھو رہا تھا۔ لانگ مارچ کے شرکاء اسلام آباد میں دھرنا دینے پر آمادہ تھے مگر اعتزاز احسن نے اسلام آباد پہنچ کر مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ نوجوان وکلا میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی، انہوں نے سڑک چھوڑنے سے انکار کر دیا، چند وکلا منتشر ہونے کے اعلان کے باوجودکچھ دیر کے لیے دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ تھوڑے ہی دن بعد ثابت ہوا کہ اعتزاز احسن کے اعلان کے پیچھے بنیاد موجود تھی اور چند دن میں تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
جو لوگ سمجھ رہے ہیں عمران خان کے کچھ حاصل کیے بغیر واپس چلے جانے سے سیاسی و معاشی بحران کا خاتمہ ہو گیا ہے اور اب حالات بہتری کی طرف جائیں گے، وہ غلطی پر ہیں۔ عمران خان کے مہلت دے کر واپس چلے جانے پر خوش ہونے والے لوگ ناپختہ سیاسی ذہن کے مالک ہی ہو سکتے ہیں۔ وہ جو حالات کاصحیح ادراک رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ تمام فیصلہ سازوں کو مسائل حل کرنے اور قابل عمل فارمولا تلاش کرنے کا وقت دیا گیا ہے۔
مان لیا جائے کہ عمران خان کا اسلام آباد مارچ ناکام رہا اور وہ انتخابات کی تاریخ لینے میں کامیاب نہ ہو سکے، پھر بھی دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ناکامی کے باوجود عمران خان کیا کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
عمران خان یہ دکھانے میں کامیاب رہے کہ ان کے کارکن مزاحمت کی سیاست کر سکتے ہیں۔ جس انداز میں خواتین، بچے اور بوڑھے تک آنسو گیس کی شیلنگ میں ڈٹے رہے اور گیلے رومال ایک دوسرے کی آنکھوں پہ رکھ کر دلاسے دیتے رہے، اس نے یقینا خود عمران خان اور ان کے مخالفین کو باور کرایا ہو گیا کہ کارکن مزاحمت کی سیاست کے لیے تیار ہیں۔
عمران خان نے رانا ثنا اللہ کے دعوے کو بھی غلط ثابت کر دیا۔ وزیر داخلہ نے فرمایا تھا کہ اگر انہیں مارچ روکنے کا حکم دیا جائے تو 20 لوگ بھی باہر نہیں نکلنے دیں گے۔ اور جب فیصلے کے بعد وزیر داخلہ کو لانگ مارچ روکنے کا کہا گیا توانہوں نے ساڑھے چار ہزار افراد کو گرفتار کیا، کنٹینرز لگا کر پنجاب اور وفاقی دارالحکومت کو عملی طور پر جام کر دیا، آنسو گیس کی بدترین شیلنگ کی، اس کے باوجود لوگ رکاوٹیں ہٹا کر اسلام آبادپہنچنے میں کامیاب رہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ عوام باہر نکل آئیں تو کنٹینرز لگا کر راستوں کی بندش سے صرف عوام کو پریشان کیا جا سکتا ہے مظاہرین اپنا راستہ بنا سکتے ہیں۔
عمران خان نے صحیح فیصلہ کیا انہوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو شیلنگ کی زد میں آتے دیکھا، عورتوں اور بوڑھوں کی حالت غیر ہوتے دیکھی تو انہیں امتحان میں ڈال کر اپنی ضد کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے حکومت اور اتحادیوں کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان اگرکارکنوں کے ساتھ ڈی چوک بیٹھ جاتے، آنسو گیس کی شیلنگ جاری رہتی، لوگوں کی جانیں دائو پر لگ جاتیں، جلائو گھیرائو ہوتا، کراچی اور لاہور میں بھی آنسو گیس کی شیلنگ جاری رکھی جاتی، بڑے شہر وں میں کام عملی طور پر معطل ہو کر رہ جاتا تو اس ساری صورتحال کا فائدہ کسے ہوتا۔ عمران خان کو واپس جانے کا طعنہ دینے والے سیاسی مخالفین اور حکومت کیا ان کے اس فیصلے کو مدبرانہ فیصلہ نہیں سمجھتے؟
عمران خان کے فیصلے سے ان کے بعض کارکنوں کو مایوسی ہوئی اور انہوں نے ڈی چوک چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ وہ الیکشن کی تاریخ ملنے تک اسلام آباد بیٹھنے کا ذہن بنا کر آئے تھے۔ مگر عمران خان کے اس فیصلے سے پتہ چلتا ہے کہ بیک ڈور رابطے جاری ہیں۔ بغیر کسی یقین دہانی کے وہ حکومت کو ٹائم دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے تھے۔ لگتا یوں ہے کہ عمران خان سے کہا گیا ہے وہ واپس جائیں، ایک ہفتے میں انہیں ان کے مطالبات کے حل کی طرف پیش رفت نظر آئے گی۔ قیاس یہی ہے کہ عمران خان ایسی ہی کسی یقین دہانی کے بعد بنی گالہ لوٹ گئے۔
آئی ایم ایف سے آنے والی خبرنے موجودہ حکومت کو ایک بڑا دھچکا دیا ہے۔ مفتاح اسمعیل اس امید کے ساتھ مزاکرات میں اترے کہ انہیں پیٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کے باوجود کچھ رقم ادھار مل جائیگی۔ آئی ایم ایف نے مگر صاف انکار کر دیا۔ وہ جنہیں لگتا تھا امریکہ آئی ایم ایف سے اس حکومت کی سفارش کرے گا انہی مایوسی ہوئی اوردوسری طرف سے صاف انکار ہو گیا ہے۔ اب حکومت کے پاس دو ہی راستے ہیں، پیٹرول کی قیمت بڑھاکر عوامی دبائو اور ردعمل کا سامنا کریں یا پھر حکومت چھوڑ کر انتخابی میدان میں اتر جائیں۔ دوسرا راستہ ن لیگ کو فیس سیونگ بھی مہیا کرے گا، وہ یہ کہہ کر حکومت سے باہر آ سکتے ہیں کہ قوم کو اس معاشی بحران میں عمران خان نے ڈالا، ہم ان کی غلط پالیسیوں کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے لہذا ہم نے انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو فریقین کو ایک بہتر حل کی جانب لے کر جاتا ہے۔
اس بحران سے نکلنے کی ایک کنجی بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کے پاس بھی ہے۔ ان میں سے کوئی ایک پارٹی وعدے پورے نہ ہونے کا شکوہ کر کے حکومت چھوڑ دے تو ن لیگ سمیت سبھی جماعتوں کو فیس سیونگ مل جائے گی اور خواجہ آصف کے اس مسئلے کا حل بھی نکل آئے گا کہ ہم حکومت چھوڑنا چاہتے تھے مگر خود پر عمران خان کے دبائو کا تاثر نہیں دینا چاہتے۔ باپ پارٹی حکومت سے نکلتی ہے تو ن لیگ کی شکست ہو گی نہ عمران خان کی۔ انائیں محفوظ رہیں گی اور کسی کی سیاسی عزت کو ٹھیس نہ پہنچے گی۔
موجودہ بحران کا واحد حل انتخابات ہیں۔ ضد چھوڑ کر ملک کے مفاد میں آگے بڑھنا ہو گا۔ کب تک ملک کو احتجاج، لانگ مارچ، شیلنگ، آنسو گیس، کنٹینرز اور لاک ڈائون کے ماحول میں رکھا جا سکتا ہے، معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا، کسی کو تو آخر ضد چھوڑنا ہی ہو گی۔ کسی ایک کو تو انا کی قربانی دینی پڑے گی۔