اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے کے حوالے سے بڑی سادگی کے ساتھ یہ دلیل دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی عدالت سے سزا یافتہ نہیں ہیں لہذا انہیں وزیر خزانہ بنائے جانے میں کوئی ہرج نہیں۔ لیکن دلیل دینے والوں نے یہ نہیں بتایا کہ جب کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا تو اپنے ہی دور حکومت میں اپنے ہی وزیر اعظم کے جہاز میں انہیں کیوں بھاگنا پڑا تھا، پھر پانچ سال تک وہ کیوں جلا وطنی کاٹتے رہے، اپنے اوپر اشتہاری کا داغ لگوا لیا لیکن واپس نہیں آئے۔ آج آئے تو پھر وزیر اعظم ہی کے جہاز میں۔
اسحاق ڈار کا پورا کیرئیر الزامات سے بھرا پڑا ہے۔ ان کی شخصیت پر کئی ایسے گرے نشانات لگے ہوئے ہیں جس کا آج تک وہ جواب نہ دے سکے۔ جواب دینے کی کوشش کی بھی تو نہایت مضحکہ خیز انداز میں جس سے ان پر لگے گرے نشانات اور گہرے ہو گئے۔ مثلا اپنی جائیدادوں کے دفاع کے لیے ایک بار وہ ایک عربی شیخ کا خط نکال لائے تھے۔ اس خط میں کہا گیا تھا کہ اسحق ڈار جون 2004 سے جون 2005تک ایک سال کے لیے اُن کے مشیر رہے تھے جس کے عوض انہیں 83 کروڑ روپے فیس ادا کی گئی۔ انہی روپوں سے انہوں نے جائیدادیں خریدیں جو بعد میں بڑھتی چلی گئیں۔ جب اسحاق ڈار سے اس 83 کروڑ کی ادائیگی کی رسیدیں یا بینک ٹرانزیکشن کا ریکارڈ مانگا گیا تو وہ کوئی ریکارڈ پیش نہ کر سکے تھے۔
اسحاق ڈار کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ اعدادوشمار کی ہیرا پھیری کا کام بڑی مہارت سے کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ ہوتے ہوئے جب انہوں نے اپنی جی ڈی پی گروتھ 4.6 فیصد دکھائی تھی توڈاکٹر حفیظ پاشا اور ڈاکٹر اشفاق حسن جیسے ماہرین کا خیال تھا یہ 2.3 سے زیادہ نہیں ہے۔ اور جب آخری سال میں اپنی گروتھ 5.6 فیصد دکھا کر گئے تو ماہرین کی رائے میں یہ ساڑھے چار فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ اسحاق ڈار ایسے ہی اپنے اعداد شمار بنانے کے ماہر ہیں۔ اپنے عوام کے ساتھ تو یہ دھوکہ دہی چل جاتی ہے مگر عالمی اداروں کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ تبھی آئی ایم ایف نے اسحاق ڈار کی جانب سے غلط اعداد وشمار پیش کرنے اور جھوٹ بولنے پر پاکستان پرساڑھے پانچ ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا جو پرویز مشرف کے دور میں حکومت پاکستان کو ادا کرنا پڑا تھا۔
جب بھی اسحاق ڈار کا ذکر آتا ہے، لندن کی ایک قاضی فیملی کا ذکر بھی آتا ہے۔ یہ وہی فیملی تھی زمانہ طالب علمی میں اسحق ڈار جن کے ہاں رہا کرتے تھے۔ پھر ان کے نام پرنواز شریف کے جعلی بینک اکاونٹس کھولے گئے، قرضے لیے گئے اور منی لانڈرنگ کی گئی۔
جب پرویز مشرف کا دور آیا تو حدیبیہ پیپر ملز کیس بنایا گیا۔ حیران کن طور پر اسحق ڈار شریف فیملی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ گویامنی لانڈرنگ کا اعتراف کیا اور بیان دیا کہ انہوں نے یہ منی لانڈرنگ اپنے لیے نہیں بلکہ شریف خاندان کے لیے کی۔ وہ الگ بات ہے بعد میں اسحاق ڈار اپنے اس بیان سے مکر گئے اور اپنے اعترافی بیان کو محض کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار دے دیا۔ حدیبیہ پیپر ملز کیس بعد میں بغیر تحقیقات کے بند کر دیا گیا اور اسحاق ڈار اس کہانی سے صاف نکل گئے۔
اسحق ڈار سسٹم کے ساتھ کھیلنے کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک آڈیو لیک میں ان کی مہارتوں کا ذکر ہے۔ شہباز شریف کے ایک افسر اُن کے ساتھ گفتگو میں مریم نواز کے داماد کے لیے امپورٹ کی جانے والی مشینری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ" صاحب یہ کام بہت مشکل ہے پھنس جائیں گے"۔ ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ" اسحاق ڈار کو آ جانے دیں وہ آکر کوئی چکر چلائیں گے تو کام ہو سکتا ہے"۔ گویا اسحق ڈار چکر چلا کر غیر قانونی کام کرانے کے ماہر مانے جاتے ہیں۔
سیاسی مخالفین سے تعلقات بہتر کرنے ہوں یا اپنے مفادات کے لیے ان کا بازو مروڑنا ہو، اسحاق ڈار سب جانتے ہیں۔ جب انہیں ٹاسک ملتا ہے تو وہ اسمبلی میں کاغذ لہرا کر کہتے ہیں کہ سوئس بینکوں میں پاکستانی سیاستدانوں کے دو سو ارب ڈالر پڑے ہیں۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان سوئس حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے جا رہا ہے جس کے بعد وہ دو سو ارب ڈالر پاکستان واپس آ جائیں گے۔ گویا اسحق ڈار پیپلز پارٹی کا بازو مروڑنے میں کامیاب رہتے ہیں اور انہیں مفاہمت اور مک مکا کی اپوزیشن کے لیے راضی کر لیتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، نہ پیپلز پارٹی نے حقیقی اپوزیشن کی اور نہ اسحق ڈار نے سوئس حکومت کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ کر کے اس قوم کے دو سو ارب واپس دلائے۔ آج دو سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں رکھنے والی یہی پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی ہے۔
اسحق ڈار پاکستان میں میڈیا کو ٹہلانے کے ماہر ہیں مگر بی بی سی کے ہارڈ ٹاک میں جا کر پھنس گئے۔ میزبان نے جائیدادوں سے متعلق سوال کیا تو فرمایا ہاں میرا لاہور میں ایک گھر ہے۔ میزبان نے دبئی کی جائیدادوں کے بارے میں پوچھا تو سوچتے ہوئے کہا ہاں ایک گھر دبئی میں میرے بچوں کا بھی ہے۔ میزبان پھر بھی مطمئن نہ ہوا کیونکہ نیب دستاویزات تو کوئی اور ہی کہانی سناتی ہیں۔ نیب کے کاغذات کے مطابق اسحق ڈار الفلاح ہائوسنگ میں تین پلاٹوں کے مالک ہیں، اسلام آباد میں ان کا چھ ایکڑ کا ایک پلاٹ ہے۔ اسحق ڈار پارلیمنٹیرین انکلیو میں دو کنال کا پلاٹ، سٹیٹ کو آپریٹو سوسائٹی میں ایک پلاٹ، نجی ہائوسنگ سوسائٹی میں ایک پلاٹ، لاہور میں گھر اور مبینہ طور پر دبئی میں پلازوں کے مالک ہیں۔
مگر کیا فرق پڑتا ہے، آج یہی اسحاق ڈار ہمارے وزیر خزانہ ہیں، کل جب انہوں نے عدالت میں سرنڈر کرنے کے لیے پیش ہونا تھا تو آئی جی پولیس اسلام آباد سمیت کئی افسران انہیں سلام ٹھوکنے کے لیے موجود تھے۔ یہ مزے برطانیہ میں کہاں تھے۔ آزاد پاکستان کی آزاد فضائوں میں سانس لینے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔