ہم سٹیٹ آف ڈینائل میں ہیں۔ گندم اور آٹے کے بحران کو ذخیرہ اندوزوں کی شرارت قرار دے کر مطمئن بیٹھے ہیں۔ حقائق سے نظریں چرا کر سمجھ رہیں ہیں، طوفان گزر جائے گا۔ چھاپہ مار مہم کے دوران چند فلور ملیں سیل کر کے سمجھ رہے حالات پر قابو پا لیا گیا ہے۔ بحران آیا نہیں ہے جناب آنے والا ہے۔
پچھلے سال گندم کی پیداوار کا ہدف 27 ملین ٹن مقرر کیا گیا۔ مختلف وجوہات کی بنا پر یہ ہدف حاصل نہ کیا جا سکااور 9.2 ملین ایکڑ رقبے پر کاشت ہونے والی گندم کی پیداوار 4.9 فیصد کم رہی جو کہ 24.6 ملین ٹن تھی۔ ہدف حاصل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ گندم کی فصل پر لیف رسٹ(Leaf Rust) نامی ایک بیماری نے حملہ کر دیا۔ لیف رسٹ فنگس کی قسموں میں سے ہے جس کے نتیجے میں گندم کا دانہ پھپھوندی کا شکار ہو کر بڑا نہیں ہو پاتا۔ دیکھنے میں فصل کا رنگ پک کر تیار ہونے والی فصل جیسا ہوجاتا ہے مگر قریب سے دیکھنے سے یہ زنگ آلود معلوم ہوتی ہے اور گندم کے دانے کو دیکھیں تو نوزائیدہ، بیمار اور جھریوں زدہ نظر آتا ہے جیسے کوئی بچہ عمر میں تو بڑا ہو جائے لیکن اس کی جسمانی نشو و نما نہ ہو سکے۔ اس بیماری کے حملے کے نتیجے میں گندم کی پیداوار 20 فیصد تک کم ہو سکتی ہے لیکن قدرت نے پھر بھی مہربانی کی اور پیداوار صرف 4.9 فیصد ہی کم ہوئی۔
پچھلے سال تو جو ہونا تھا ہو گیا، لیکن بڑا مسئلہ آج سے چند دن پہلے اس وقت پیدا ہوا جب گندم کی کاشت کے وقت کسانوں کو بیج کی ضرورت تھی اور کسانوں کے پاس صحت مند بیج موجود نہ تھے۔ محکمہ خوراک نے کسانوں کو گندم کاشت کرنے کے لیے جو بیج فراہم کیے وہ پچھلے سال "لیف رسٹ" نامی بیماری کا شکار ہو جانے والی گندم کی اسی فصل سے حاصل کیے گئے تھے جس کا دانہ کمزور اور بیمار ہو گیا تھا۔ ان بیمار بیجوں میں بھی دو طرح کے بیج ہو سکتے تھے۔ کم بیمار، جو اپنے نصف یا دو تہائی سائز کو پہنچ گئے ہوں اور دوسرے زیادہ بیمار، جو اپنے اصل دانے کے ایک تہائی سائز کوبھی نہ پہنچ پائے ہوں۔ بدقسمتی سے محکمہ زراعت نے اس سال گندم کی فصل کاشت کرنے کے لیے کسانوں کو جو بیج فراہم کیے ہیں وہ دوسری قسم کے ہیں، نہایت کمزور، بیمار، پھسپھسے اور نا قابل کاشت۔ ان بیجوں کو دیکھ کر کسان اس پریشانی کا شکار تھا کہ اگر ان بیمار بیجوں کو کاشت کر دے تو فصل کیا حاصل کرے گااور اگر کاشت نہ کرے تو کیا کرے؟ ہاتھ پہ ہاتھ دھرا بیٹھا رہے؟ آلو کاشت کر لے؟ یا زمین کی ہائوسنگ سوسائٹی بنا کر پلاٹ بیچ دے؟ اب گندم کاشت کرنے والے لوگوں نے دو طرح کا قدم اٹھایا ہے، ایک تو یہ کہ جس سے بن پڑا اس نے کہیں اور سے نایاب ہو جانے والا بہتراور اچھا بیج مہنگے داموں خرید کر کاشت کیا جس سے اس کی کاسٹ آف پروڈکشن بڑھ جائے گی اور دوسرا وہ کسان جس نے مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق محکمہ زراعت کا فراہم کردہ وہی کمزور اور بیمار بیج کاشت کر دیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
مگر حکومتیں یہ کہہ کر نہیں چلائی جا سکتیں کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ کیسے ممکن ہے کہ حکومت کو معلوم نہ ہو کہ زراعت ہماری GDP میں 19 فیصد کا حصہ ڈالتی ہے اور 42.3 فیصد مزدور زراعت کے محکمے سے جڑے ہوئے ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ حکومت کو معلوم نہ ہو کہ گندم کاہماری زراعت میں 10.3 فیصد کا حصہ ہے اور کیسے ممکن ہے کہ حکومت کو معلوم نہ ہو کہ گندم کی فصل متاثر ہونے سے ملک کے مجموعی گروتھ ریٹ پر منفی اثر پڑتا ہے۔ کیسے ممکن ہے حکومت کو پتہ نہ ہو کہ بیمار بیج سے صحت مند فصل پیدا نہیں کی جا سکتی اور بیمار بیج سے 27.3 ملین ٹن گندم کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ بیمار بیج کاشت کرواتے وقت محکمہ زراعت کو معلوم نہ ہو کہ وہ آئندہ سال بھی آٹے کے بحران کو دعوت دے رہے ہیں اور کیسے ممکن ہے حکومت کو پتہ نہ ہو کہ آٹے اور چینی کابحران حکومتوں کو بہا لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے چاہے وہ محمد علی بوگرا کی حکومت ہو، ایوب خان کی حکومت ہو یا پھر پرویز مشرف کی۔
گندم کاشت کرنے والے کسانوں کے کچھ مسائل اور بھی ہیں، ڈیزل 129 روپے روپے لیٹر ہو چکا ہے، کھاد اور کیڑے مار ادویات کی قیمتوں میں بھی 2012 کے مقابلے میں 100 فیصد اضافہ ہو چکا ہے مگر گندم کی قیمت وہی 1300 روپے من ہے جو 2012 میں تھی۔ کاسٹ آف پروڈکشن بڑھ چکی ہے اور قیمت فروخت جوں کی توں۔ یوں گندم کے کاشت کار کی مسلسل حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ مسلسل حوصلہ شکنی گندم کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ بن جائے۔
فصلوں پر آنے والے ایک اور بہت بڑے طوفان نے کسانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں مگر مجال ہے حکومت کو اس کی شدت اور سنجیدگی کا اندازہ ہو۔ پچھلے سال افغان باشندوں کی طرح مہمان بن کرافغانستان سے آنے والے ٹڈی دل نے سر زمین پاکستان پر انڈے دے دیے ہیں، آجکل ان ٹڈیوں کابریڈنگ سیزن یا افزائش نسل کا موسم چل رہا ہے۔ ایک ایک ٹڈی 80 سے 100 تک انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مان لیجے کہ ان میں سے آدھے انڈے ضائع ہو جاتے ہیں باقی کے انڈوں سے نکلنے والے بچے اگست میں جوان ہو جائیں گے اور لشکر بن کر فصلوں پر حملہ آور ہوں گے اس لشکر کا سائز پچھلی نسل سے 50 گنا بڑاہو گا، 50 فیصد زیادہ نہیں، 50 گنا زیادہ۔ کیا حکومت نے اس تباہ کن لشکر سے نمٹنے کی تیاری کر رکھی ہے۔ اگر ٹڈیوں کے اس دل نے گندم کی فصل پر حملہ کر دیا تو متبادل حکمت عملی کیا ہے ہمارے پاس؟ کسی کو معلوم ہے یا یہ تبھی سوچیں گے جب خدانخواستہ ایسا ہو چکا ہو گا۔