Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Nazriya Bachana Hai Ya Seat?

Nazriya Bachana Hai Ya Seat?

سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کا فارمولہ ہے کیا؟ کہیں نظریہ قربان کر کے سیٹ جیت رہے ہیں اور کہیں سیٹ قربان کر کے نظریہ بچا رہے ہیں۔

ضمنی انتخابات کا بگل بجنے کو تھا جب میری تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ تحریک انصاف نے ٹکٹوں کی تقسیم میں ہمیشہ غلطیاں کی ہیں، اس بار کیسے یقینی بنایا جائے گا کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے لیے موزوں ترین افراد کو ٹکٹ جاری کیے جائیں۔ عمران خان نے نہایت طمطراق سے جواب دیا، "اس بار ہر امیدوارسے انٹرویو کرنے کے بعد ہر ٹکٹ کا فیصلہ میں خود کروں گا"۔

اس جواب سے میرے ذہن میں فورا یہ سوال پیدا ہوا کہ صحیح ٹکٹ دینے کا یہ کیا فارمولہ ہوا کہ عمران خان خود فیصلہ کریں گے جبکہ وہ ہر حلقے کے زمینی حقائق سے واقف نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کی پارٹی کے کئی مفاد پرستوں نے ماضی میں پیسوں کے عوض یا اقربا پروری سے کام لیتے ہوئے غلط ٹکٹ دیے جس کے بعد پارٹی چئیرمین نے یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سے شفافیت تو شاید آ جائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان بھی ہر گز زمینی حقائق کے تمام پہلووں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ نہیں کر سکتے۔

اب پی پی 83خوشاب ہی کی مثال لیجے۔ عمران خان نے خود انٹرویو کیے، ٹکٹ کے لیے دو امیدوار میدان میں تھے، حامد محمود وڈھل اور ملک حسن اسلم۔ حسن اسلم کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں، وہ حلقے کے رہنے والے بھی نہیں، الیکشن لڑنا تو دور کی بات وہ حلقے کے گلی محلوں اور علاقے کے ناموں سے بھی واقف نہیں۔ ان کی کوالیفیکیشن صرف یہ ہے کہ ان کے بڑے بھائی عمر اسلم ایم این اے ہیں۔ حلقے کے عوام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

اس کے باوجود وہ ٹکٹ لینے میں اس لیے کامیاب ہو گئے کہ وہ انگریزی بولنے والے ماڈرن نوجوان ہیں اور انٹرویو میں عمران خان کو شیشے میں اتارنے میں کامیاب رہے۔ ٹکٹ لینے کے بعد حلقے میں نکلے تو کوئی ان کے نام تک سے واقف نہ تھا۔ دوسری طرف حامد محمود وڈھل تحریک انصاف کے پرانے کارکن ہیں، حلقے کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔

عوام کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں، پچھلے دس سال سے لوگوں سے مسلسل رابطہ رکھا، چیئرمین رہ چکے ہیں علاقے میں بہت سے کام کرائے ہیں، ہر شخص ان کے نام اور شخصیت سے واقف ہے، پڑھے لکھے بھی ہیں مگر وضع قطع سے دیہاتی ہیں۔ شاید اسی لیے انٹرویو میں عمران خان کو متاثر نہ کر سکے۔ حلقے میں ہر شخص کی زبان سے یہ الفاظ سنائی دیتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف حامد محمود وڈھل کو ٹکٹ دیتی تو یہ سیٹ کنفرم تھی لیکن کوئی کیا کرے کہ عمران خان کا اپنا معیار ہے انہیں بس محمود وڈھل نہیں بھائے اور حسن اسلم بھا گئے۔

عمران خان کی اس نا انصافی کا نتیجہ یہ نکلا کہ حامد محمود وڈھل ناراض ہو کر آزاد کھڑے ہو گئے اور تحریک انصاف کے ووٹ توڑنے کے لیے میدان میں ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آزاد حیثیت میں وڈھل شاید جیت تو نہ پائیں گے لیکن تحریک انصاف کے اچھے خاصے ووٹ توڑ کے حسن اسلم کو بھی شدید دھچکا پہنچائیں گے۔ تحریک انصاف کی دوسری غلطی یہ ہے حامد محمود وڈھل کو منانے کے لیے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سبطین خان کو بھیجا مگر وہ کوئی جہانگیر ترین تھوڑا ہی ہیں۔

پارٹی کی مرکزی قیادت وہاں جا کر کوئی مناسب بات کرے تو شاید وڈھل صاحب مان بھی جائیں۔ اب خان صاحب سے کوئی پوچھے کہ حلقے سے جب آپ واقف ہی نہیں ہیں تو کیوں یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی اور ایک اجنبی کو عوام پر کیوں مسلط کیاجسے لوگ "امپورٹڈ امیدوار" کہہ کر بلاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس محلے میں کیمپین پر ہیں۔

لاہور میں ٹکٹ کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو نذیر چوہان کے مقابلے میں اعجاز چودھری کے بیٹے علی چودھری بھی ٹکٹ کے خواہشمند تھے۔ اعجاز چودھری کا حلقے میں اچھا خاصا ووٹ بینک اور اثر ورسوخ موجود ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ اگر اعجاز چودھری کے بیٹے کو ٹکٹ دے دیا جائے تو وہ اپنے بیٹے کے لیے لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کے باوجود انہیں ٹکٹ اس لیے نہیں دیا گیا کہ موروثی سیاست کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ خوشاب میں حسن اسلم کو محض اس لیے ٹکٹ کیوں دے دیا گیا کہ وہ ایم این اے عمر اسلم کے بھائی ہیں۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات اگر تحریک انصاف کو جیتنا ہیں تو ناراض لوگوں کو منانے کی مہم تیز کرنا ہوگی۔ بہاولنگر میں طارق عثمان نے پچھلے انتخابات میں 47 ہزار سے زائد ووٹ لیے لیکن تحریک انصاف کی نگاہ انتخاب اس مرتبہ سید آفتاب شاہ پر جا ٹھہری۔ طارق عثمان ناراض ہو گئے اور اپنے بھائی اکرم خان کو آزاد حیثیت میں کھڑا کر دیا۔ یہاں بھی تحریک انصاف کے ووٹ تقسیم ہو گئے لیکن احساس ہونے پر غلطی سدھار لی گئی ہے۔ تحریک انصاف نے طارق عثمان کے خاندان کو راضی کر لیا ہے جس کے بعد وہ تحریک انصاف کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہو گئے ہیں۔

پی پی 228 لودھراں میں تحریک انصاف کے پاس کوئی مناسب امیدوار ہی نہیں تھا۔ یہاں اس نے عزت جاوید خان کو ٹکٹ دیاجو ایک بار الیکشن لڑے تو ہیں مگر جیتے نہیں۔ حلقے میں ان کی پوزیشن تیسرے نمبر پر دکھائی دیتی ہے۔ خود عزت جاوید خان کہتے ہیں کہ تحریک انصاف آزاد امیدوار رفیع الدین بخاری کو ٹکٹ دیتی تو وہ اسے سپورٹ کرتے۔ تحریک انصاف مگر رفیع الدین بخاری کو ٹکٹ کے لیے راضی کرنے میں ناکام رہی اور وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بیس حلقوں میں چند ایک ایسے بھی ہیں جہاں تحریک انصاف نے اپنا نظریہ، بیانیہ اور اصول ایک سائیڈ پہ رکھ کر الیکٹیبلز کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔

جیسے لودھراں کے عامر اقبال شاہ کا پی ٹی آئی کی نظریاتی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے والد پیر اقبال شاہ ماضی میں پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین کو شکست دے چکے ہیں۔ چونکہ ن لیگ کی مجبوری تھی کہ اس نے پی ٹی آئی کے منحرف رکن زوار وڑائچ کو ٹکٹ دینا تھی تو عامر اقبال شاہ ن لیگ سے ناراض ہو کر پی ٹی آئی میں آ گئے۔ ہو سکتا ہے کل کو صلح کر کے واپس چلے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا وہ نظریہ جو ایک حلقے میں ٹکٹ دیتے ہوئے اچانک جاگ جاتا ہے وہ ایسے حلقوں میں کہاں چلا جاتا ہے۔ نظریے کو ایک سائیڈ پہ رکھیں تو فیصلہ پی ٹی آئی کا صحیح ہے، نظر آتا ہے کہ عامر اقبال شاہ سیٹ جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کا فارمولہ ہے کیا؟ کہیں نظریہ قربان کر کے سیٹ جیت رہے ہیں اور کہیں سیٹ قربان کر کے نظریہ بچا رہے ہیں۔