پنجاب میں بدترین شکست کے باوجود بھی رانا ثناء اللہ اپنے اعتماد کا بھرپور اظہار کرنے کی کوشش میں لگے تھے۔ اگرچہ ان کے چہرے کے تاثرات ان کے الفاظ کے ساتھ مماثلت نہ رکھتے تھے مگر زبان سے وہ اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ فرمانے لگے ہم نے 2018 کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لیے۔ چلیے الیکشن میں اترنے سے پہلے کسی کا اندازہ تو غلط ہو سکتا ہے مگر نتائج آنے کے بعد حساب کیسے غلط ہو سکتا ہے؟
حقیقت جاننے کے لیے ایک سادہ سے کیلکولیٹر کی ضرورت تھی جو آجکل سب کے موبائل میں موجود ہوتا ہے۔ مجھے جمع تفریق کرنے میں چند منٹ لگے۔ حکومت نے بہت سوچ سمجھ کے اُن نو حلقوں سے تحریک انصاف کے استعفے قبول کیے تھے جہاں تحریک انصاف کامخالف امیدوار محض ایک دو ہزار ووٹوں کے فرق سے ہارا اور وہاں پی ڈی ایم کے امیدواروں کا مجموعی ووٹ تحریک انصاف سے کم از کم دو گنا یا اس سے بھی زیادہ رہا تھا۔
اتحادی حکومت نے صرف انہی حلقوں سے استعفے قبول کئے تھے جہاں پی ڈی ایم میں شامل کم از کم تین جماعتوں کا اچھا ووٹ بینک موجود تھا۔ جیسے کراچی کے حلقے 239 میں ایم کیو ایم جیتی تھی مگر وہاں پیپلز پارٹی، ن لیگ اورجمعیت علمائے اسلام تینوں کے امیدواروں نے اپنی اپنی جماعت کے لیے اچھے خاصے ووٹ لیے تھے جن کا مجموعہ تحریک انصاف کے جیتنے والے امیدوار سے دوگنا سے زیادہ بنتا تھا۔ مردان میں بھی ایسا ہی تھا۔
علی محمد خان محض دو ہزار ووٹوں سے جیتے مگر یہاں مولانا قاسم کے علاوہ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور اے این پی نے بھی ہزاروں ووٹ لیے۔ ان تینوں مخالف جماعتوں کے مجموعی ووٹ ایک لاکھ تینتیس ہزار سے زیادہ تھے۔ یہی سوچ کر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے استعفیٰ قبول کرنے کے لیے اِن مخصوص نشستوں کا انتخاب کیا تھاکہ جب مل کر میدان میں نکلیں گے تو آدھی سے زیادہ سیٹیں تو جیت ہی لیں گے۔ ہوا مگر کیا؟ یہی جاننے کے لیے میں نے کیلکولیٹر کا استعمال کیا۔
قومی اسمبلی کی جن آٹھ نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ہیں یہاں 2018 میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے مجموعی طور پر پانچ لاکھ چھاسی ہزار ووٹ لیے تھے۔ اب 2022میں عمران خان اور مہر بانو قریشی نے مجموعی طور پر پانچ لاکھ ستاون ہزار ووٹ دوبارہ حاصل کر لئے ہیں۔ یعنی تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات میں تقریبا اپنے اُسی ووٹ کو دوبارہ حاصل کر لیا جو انہوں نے 2018 میں لیا۔ مگر پی ڈی ایم کی صورتحال مختلف ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل پانچ بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی اور ایم کیو ایم نے انہی نشستوں پہ مجموعی طور پر نو لاکھ بارہ ہزارسے زائد ووٹ لیے تھے۔ اسے آپ اینٹی پی ٹی آئی ووٹ کہہ سکتے ہیں۔ مگر اب2022 میں اِنہی جماعتوں نے مل کر نو لاکھ بارہ ہزار کی بجائے محض چار لاکھ اسی ہزار ووٹ حاصل کئے، جسے آپ تقریبا نصف کہہ سکتے ہیں۔ گویا عمران خان نے تو 2018 کا اپنا ووٹ دوبارہ حاصل کر لیا مگر پی ڈی ایم کا آدھا ووٹر کم ہو گیا یعنی وہ ناراض ہو کر گھر سے ووٹ دینے ہی نہیں نکلا۔
مگر حیرت ہے رانا ثنا اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے ووٹ میں 2022 کے مقابلے میں اضافہ ہوا۔ نہ جانے ان کے کیلکولیٹر میں غلطی ہے یا میرے۔ استعفے قبول کرتے ہوئے پہلے حکومت کا اندازہ غلط ہو گیا اور اب رانا ثنا اللہ کا حساب غلط ہے۔ حیرت ہے کوئی اتنی صفائی سے حقائق کا چہرہ کیسے مسخ کر سکتا ہے۔
رانا ثنا اللہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ایک اور دلیل دہر ا دہرا کے دی گئی، کہا گیا کہ ہمارے عام امیدواروں نے پارٹی چئیرمین عمران خان کا مقابلہ کیا۔ مگر دوسری طرف عمران خان نے بھی تو 15جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کا مقابلہ کیا۔ اگر عمران خان نے 2023 کا الیکشن ہر سیٹ پر خود نہیں لڑنا ہے تو پی ڈی ایم بھی چودہ جماعتوں کا اتحاد بنا کر انتخابی معرکے میں نہیں اتر سکے گی۔
آج علی موسیٰ گیلانی ایک لاکھ سات ہزار ووٹ لے رہے ہیں مگر جنرل الیکشن میں ن لیگ کے عبدالغفار ڈوگر بھی تو میدان میں اتریں گے جنہوں نے 2018 کے انتخابات میں ساٹھ ہزار ووٹ لیے تھے۔ جب علی موسیٰ گیلانی، مولانا قاسم، شزرا منصب کھرل، ایمل ولی خان اور حکیم بلوچ کا ووٹ تقسیم ہو گا تو شاید یہ امیدوار اتنے بھی ووٹ نہ لے پائیں گے جتنے وہ آج لے پائے۔ یہ البتہ ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمن، پیپلز پارٹی اور ن لیگ آپس میں انتخابی اتحاد بنا کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیں۔ آسان مگر یہ بھی نہیں ہے۔ کون پارٹی اپنا حلقہ کسی دوسرے کو سونپنا چاہے گی اور کون سا امیدوار اپنی سیٹ اپنے روایتی مخالف کی جھولی میں ڈالنا چاہے گا۔
عمران خان کی اس جیت میں پاکستان کے مقتدر حلقوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ عوام نے فیصلہ سنا دیا کہ وہ نئے انتخابات چاہتے ہیں۔ ووٹر جانتا تھا کہ ان کا ووٹ انہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں دلائے گا، اس کے باوجود انہوں نے باہر آ کر ووٹ ڈالا۔ یعنی عوام نے پارلیمنٹ میں واپس نہ جانے کے لیے ووٹ دیا۔ عوام نے نئے انتخابات کے لیے ووٹ دیا۔ عوام کے جذبات اور خواہش کے خلاف کتنا عرصہ چلا جا سکتا ہے۔
17 جولائی اور 16اکتوبر کے عوامی رد عمل کو دیکھ کر موجودہ حکومت کو اخلاقی طور پر خود استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ خود اگر وہ یہ قدم نہیں اٹھا سکتے تو فیصلہ سازوں کو انہیں سمجھانا چاہیے کہ لوگوں میں لاوا پک رہا ہے اس آگ کو ٹھنڈا نہ کیا گیا تو لاوا ابل پڑے گا اورموجودہ حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ غیر مقبول ہوتی چلی جائے گی۔
اب سب نظریں عمران خان کی طرف ہیں۔ عوامی مینڈیٹ اور حمایت انہیں حاصل ہے، اس کا ثبوت بھی سامنے آ چکا۔ ایسے میں کیا عمران خان لانگ مارچ میں اتریں گے یا پہلے ہی ان کے مطالبے کو تسلیم کر لیا جائے گا۔ یہی اب دیکھنے کی بات ہے۔