وہ لوگ جو شہباز شریف کے خلاف ایف آئی اے کی اسپیشل سینٹرل کورٹ سے فرد جرم عائد ہونے اور پھر ٹرائل کی صورت میں ان کے جیل جانے کی آس لگائے بیٹھے ہیں انہیں تھوڑا صبر سے کام لینا ہو گا۔ اتنی جلدی ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
18 فروری کو شہباز شریف کے خلاف فرد جرم عائد ہونا تھی، پھر 28 فروری کے لیے امید باندھ لی گئی اور اب 10 مارچ کی تاریخ پڑی ہے۔ فرد جرم عائد ہونے کا امکان اگلی تاریخ پر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ وجوہات بہت سی ہیں۔ فرد جرم عائد کرنے سے پہلے کئی متفرق درخواستیں عدالت کے سامنے آ چکی ہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ کے شریک ملزم چیف فنانشل آفیسر محمد عثمان کی جانب سے بریت کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ ایک اور شریک ملزم کی جانب سے عدالت کا دائرہ اختیار چیلنج کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تیسری درخواست ایف آئی اے کی طرف سے دائر کی گئی ہے جس میں مذکورہ بالا تمام درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے کر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ ایک اور گھمبیر مسئلہ بھی آڑے آیا ہوا ہے۔ 10 فروری کو تمام ملزمان کو چالان کی کاپیاں فراہم کر دی گئیں۔ 18 فروری کی سماعت کے موقع پر کہا گیا کاپیاں صاف نہ ہونے کی وجہ سے پڑھی نہیں جا رہیں، دوبارہ فراہم کی جائیں۔ دوبارہ فراہم کی گئیں تو 28 فروری کو بھی یہی مسئلہ دوبارہ اٹھا دیا گیا کہ کاپیوں کی سیاہی اچھی نہیں، ٹھیک سے پڑھی نہیں جا رہیں۔ عدالت نے ایک بار پھر پراسیکیوشن کو فریش کاپیاں فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
جب عدالت کی جانب سے فرد جرم عائد کرنے کے لیے 10 مارچ کی تاریخ دی جا رہی تھی تو جج صاحب کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا تھا اگلی مرتبہ سی ایف او عثمان کی جانب سے دائر کی گئی بریت کی درخواست پر دلائل دیے جائیں، ایک ملزم کی جانب سے عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کے معاملے پر بھی اسی تاریخ کو دلائل دیے جائیں گے، روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی درخواست پر بحث بھی 10مارچ کو ہو گی۔ اگر یہ سب ہو گیا تو پھر فرد جرم عائد ہونے کی باری آئے گی۔
ہمارے ہاں وکلا نے کسی ایک درخواست پر دلائل دینے ہوں تو کئی کئی مہینے لے جاتے ہیں نہ جانے تین تین درخواستوں پر ایک ہی دن میں سماعت مکمل کر کے فرد جرم کیسے عائد ہو گی۔ گذشتہ سماعت پر سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے حمزہ شہباز کے وکیل کے طور پر وکالت نامہ جمع کرایا اور اپنی بیٹی کی شادی کا کہہ کر لمبی تاریخ مانگ لی۔ امجد پرویز طبیعت کی خرابی کے باعث پیش ہی نہ ہوئے۔ اعظم تارڑ نے یہ بھی کہا چونکہ امجد پرویز آج پیش نہیں ہوئے تو اس لیے کارروائی آگے نہ بڑھائی جائے۔ اب اگلی بار دیکھئے امجد پرویز، اعظم تارڑ اور سترہ کے سترہ ملزمان صحت یاب رہتے ہیں یا خدانخواستہ ان میں سے کوئی ایک کورونا یا ڈینگی کا شکار ہو جاتا ہے۔
عدالت کے اندر اور باہر ملزمان کی حکمت عملی واضح ہے۔ عدالت میں ٹرائل نہ چلنے دیا جائے اور باہر دوہرایا جاتا رہے کہ دیکھیں تین سال میں ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی۔ سادہ سا سوال ہے کہ اگر کچھ کیا نہیں ہے تو فرد جرم کیوں عائد نہیں ہونے دیتے؟
عدالتی نظام بے بس ہو چکا ہے۔ وکلا کے اختیار میں ہے کہ کیس کیسے اور کب تک لٹکانا ہے۔ رانا ثناء اللہ پر نارکوٹکس کیس میں دو سال سے زائد وقت گزرنے کے باوجود فرد جرم ہی عائد نہیں ہوئی، ٹرائل نہ جانے کب شروع ہو گا۔ اگلے انتخابات میں وہ یہ کہنے میں حق بجانب دکھائی دیں گے کہ دیکھیں میرے خلاف الزامات ثابت ہی نہیں ہو سکے۔ صاف پانی کیس میں تمام ملزمان بری کر دیے گئے حالانکہ اس کیس میں ٹرائل ہی مکمل نہیں ہوا تھا اور نیب کے 39 میں سے ایک بھی گواہ کو نہیں سنا گیا۔ آج شہباز شریف اسے اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
اب منی لانڈرنگ کیس میں بھی ایف آئی اے کی جانب سے بنایا گیا چالان شہباز شریف کے خلاف ایک ایسی دستاویز ہے جس میں 14 کم آمدن والے ملازمین کے 28 اکائونٹس میں 16 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کا تمام ریکارڈ موجود ہے۔ بینک اکائونٹس، ہر اکائونٹ میں آنے والی ایک ایک ٹرانزیکشن، ہر اکائونٹ میں جمع ہونے اور نکلوائی جانے والی تمام رقوم کی تفصیلات کے علاوہ 72 ان لوگوں کی رقوم کی ترسیل کا ریکارڈ بھی دیا گیا ہے جنہوں نے اپنے دوسرے کاروباری معاملات کے لیے چیک یا پے آرڈر بینک میں جمع کرائے اور وہ 14 ملازمین کے اکائونٹس میں نظر آنے لگے۔ یعنی اصل رقوم کہیں اور سے آئیں اور بظاہر بھیجنے والے عام کاروباری لوگ تھے۔
ایف آئی اے نے جب ان سب لوگوں کو بلا کر انٹرویو کیے تو سب نے الگ الگ کہانی سنائی، ایک بزرگ ریٹائرڈ سکول ٹیچر نے کہا کہ انہوں نے تو حج کی غرض سے اپنی اور اپنی اہلیہ کی رقم جمع کرائی، انہیں نہیں معلوم ان کا چیک کیسے شریف خاندان کے اکائونٹس میں جمع کرا دیا گیا۔ کئی لوگوں نے کہا انہوں نے کاروباری ادائیگیوں کے لیے دوسری پارٹیوں کو چیک بھجوائے نہ جانے وہ ان اکائونٹس میں کیسے آ گئے۔ لازمی طور پر یہ کھیل بینکوں کی ملی بھگت اور تعاون سے کھیلا جا رہا تھا۔
ایک طرف شہباز شریف کے خلاف کیسز کو تیزی سے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتیں تو دوسری طرف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد لگانے کی کوششیں بھی نتیجہ خیز ثابت ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔ دل لگی کے لیے پیپلز پارٹی نے اپنا لانگ مارچ شروع کر رکھا ہے۔ لیکن لانگ مارچ سے کارکن تو متحرک ہو جاتے ہیں حکومتیں گھر نہیں جایا کرتیں۔ اب دیکھئے پہلے شہباز شریف جیل جاتے ہیں یا عمران خان گھر جاتے ہیں۔