Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Shahzad Akbar Se Chand Sawal

Shahzad Akbar Se Chand Sawal

پریس کانفرنسز کے ماہر بیرسٹر شہزاد اکبر نے ایک اور پریس کانفرنس میں پانچ نئے دعوے کیے ہیں۔

-1 نیو اسلام آباد ایئر پورٹ کے ٹھیکیدار نے کک بیکس کی مد میں چودھری شوگر ملز کے اکائونٹس میں 560 ملین روپے منتقل کیے جو مریم نواز شریف کی ملکیت ہیں۔

-2 چودھری شوگر ملز کے اثاثوں کی مالیت 6 ارب روپے ہے جبکہ 1991ء میں جب یہ قائم کی گئی تھی تو اس کی مالیت صرف 13 لاکھ روپے تھی۔ فرضی قرضوں جعلی ٹی ٹیز اور براہ راست کک بیکس کے ذریعے چودھری شوگر ملز نے ترقی کی۔

-3 اسحاق ڈار نے شیڈرون جرسی لمیٹیڈ کے نام سے جو فرضی کمپنی بنائی اس کا اصل مالک فیصل انویسٹمنٹ بینک نہیں بلکہ نواز شریف ہیں۔

-4 پنجاب کارپٹ نے نیشنل بینک اور مہران بینک سے 65 ملین روپے قرضہ حاصل کیا اور اسکو چودھر ی شوگر ملز کو منتقل کیا بعد ازاں 105 ملین روپے کا قرضہ معاف کر دیا گیا۔

-5 2010ء میں حسن نواز کی جانب سے ایک ملین ڈالر چودھری شوگر ملز کے اکائونٹ میں منتقل کیے گئے۔

-6 چودھر ی شوگر ملز کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔

-7 چودھری شوگر ملز ایک کارپوریٹ فراڈ ہے۔ وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائےاحتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے5 دسمبر 2019 کو کی گئی اپنی ایک پریس کانفرنس کا حوالہ دے کر کہا کہ اس پریس کانفرنس میں ان کی جانب سے اٹھائے گئے 18 سوالات کا جواب بھی نہیں دیا گیا۔ ان 18 سوالات میں نثار احمد گل، ملک علی احمد، گڈ نیچر کمپنی، مسرور انور، شعیب قمر، عامر عظمت راجہ، اظہر اقبال، فضل داد عباسی، ملک مقصود، طاہر نقوی، قاسم قیوم، محبوب علی، منظور احمد، نوید اکرام اور اس جیسے منی لانڈرنگ کے دوسرے کرداروں اور فرنٹ کمپنیوں کے بارے میں سوالات کیے گئے تھے۔ بیرسٹر شہزاد اکبر نے شہباز شریف سے پوچھا تھا کہ آپ کی بیویوں کے نام پر خریدی جانے والی جائیدادوں کے لیے رقم کیا منی لانڈرنگ کے فلاں فلاں ذرائع سے نہیں آئی تھی۔ رمضان شوگر ملز اور گڈ نیچر کمپنی کے گٹھ جوڑ، حمزہ، حسن اور حسین کی کاروباری چالوں اور منی لانڈرنگ کے ذرائع کے بارے میں بھی سوالات کیے گئے تھے۔ شہزاد اکبر نے پوچھا ہے کہ شہباز شریف صاحب آپ نے ان سوالوں کے جواب کیوں نہیں دے۔

ہمیشہ سوالات پوچھنے والے بیرسٹر شہزاد اکبر سے میرے بھی چند سوال ہیں :

-1 شہزاد اکبر صاحب مکمل اعدادو شمار کے ساتھ اٹھائے گئے ان تازہ سوالات کو پریس کانفرنس میں لانے کے بجائے عدالت میں لے جا کر ریفرنس دائر کرنے کو ترجیح کیوں نہ دی گئی۔

-2 حمزہ شہباز، شہباز شریف اور مریم نواز کے حوالے سے آپ کے پاس اتنے ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو نیب کو فراہم کیوں نہیں کرتے یا آپ نے نیب ہی سے حاصل کیے ہیں؟

-3 شریف خاندان کے خلاف آپ کے پاس موجود تمام ثبوت عدالتی کارروائی کا ایک فریق بن کے آپ عدالت کو فراہم کیوں نہیں کر دیتے؟

-4 اتنے سنگین الزامات اور اتنے سارے ثبوتوں کے ہوتے ہوئے مریم نواز کو آخر ضمانت مل کیسے گئی؟

-5 شہباز شریف کے خلاف الزامات ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود بھی ثابت کیوں نہ کیے جا سکے؟

-6 شریف فیملی کے خاندان کا نظام اور کروڑوں کا ماہانہ خرچ اب کیسے چل رہا ہے؟ اب بھی ٹی ٹیز کے ذریعے رقم آ رہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو روکا کیوں نہیں جا رہا اور اگر پہلے سے جمع کی گئی رقموں کے ڈھیر 55-K ماڈل ٹائون میں لگے ہیں تو غیر قانونی طور پر جمع کی گئی یہ رقم برآمد کیوں نہیں کی جا رہی؟

-7 منی لانڈرنگ اور کک بیکس کے ذریعے خریدے گئے Whispering Pines کے ولاز اور جوہر ٹائون کے پلاٹس سیل کیوں نہیں کر دیے گئے؟

-8 آپ کی جانب سے سامنے آنے والی تازہ ترین معلومات کی روشنی میں مزید ایک ریفرنس شہباز شریف، حمزہ اور مریم پر لایا جا سکتا ہے، آپ یہ ریفرنس کب لا رہے ہیں؟

-9 غیر ملکی بینکوں میں پڑے اربوں روپے آپ نے پاکستان واپس لانے کا اعلان کیا تھا، ان میں سے اب تک کتنے پیسے آ چکے ہیں اور باقی کب آ رہے ہیں؟

-10 کیا صرف پریس کانفرنسز سے کرپشن ختم ہو جائے گی یا چوروں کو سزا دینے سے؟

پرسیپشن حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شہزاد اکبر صاحب کی جانب سے مسلسل پریس کانفرنسز کا مقصد اپوزیشن کے خلاف ایک خاص پرسیپشن پیدا کرنا یا پہلے سے پیدا کردہ پرسیپشن کو مزید طاقتور بنانا ہے۔ سیاسی حکمت عملی یہی معلوم ہوتی ہے کہ اپوزیشن پر الزام لگا کر انہیں دبائو میں رکھا جائے، عوام کو تاثر دیا جائے کہ ملک کی موجودہ حالت ان کرپٹ سیاستدانوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے ملک کو لوٹ کر کھا لیا، ملک اور عوام کا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجا، پھر ٹی ٹیز کے ذریعے یہی پیسہ واپس منگواکر جائیدادیں بنائی گئیں اور عیش و عشرت کے لیے خرچ کیا گیا۔ حکومت اور شہزاد اکبر صاحب کی کہانی ہو سکتا ہے غلط نہ ہو لیکن یہ اور ان جیسے سیکڑوں الزامات ابھی تک ثابت نہیں کیے جا سکے۔ عوام اب ان کہانیوں سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں، نتائج کے منتظر ہیں اور چوروں سے پیسے واپس نکلوانے کے خواہشمند۔ یہ کہانی جو انتخابات سے پہلے بیچی گئی اس کے فوائد انتخابات میں حاصل ہوئے، مگراب عوام کو ان وعدوں کی تکمیل چاہیے جو آپ نے اقتدار میں آنے سے پہلے کیے تھے، کرپٹ لوگوں سے رقم واپس لینے کے وعدے اور عوام کوخوشحال بنانے کے وعدے۔ حقیقت یہ ہے کہ پورا زور لگانے کے باوجود ابھی تک کسی بڑے "چور" سے ایک روپیہ بھی نہیں نکلوایا جا سکا۔