جب بھی لوگ کسی بھی جماعت کے جلسے میں اپنے خاندان اور بچوں کے ساتھ نکلتے اور جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں تو ایک بات یقینی ہوتی ہے کہ لوگ بہتری کے خواہش مند ہیں۔ 2011کے جلسے میں بھی کم و بیش ایسا ہی سماں تھا۔ ماضی میں ایم کیوایم کے جلسوں میں بھی لوگ اپنے خاندان کے ساتھ شرکت کیا کرتے تھے۔ طاہر القادری کے ساتھ بھی خواتین نے اپنے بچوں کے ساتھ شرکت کی۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ قوم مایوس نہیں ہوتی، امید نہیں توڑتی، خواب دیکھنا نہیں چھوڑتی، بہتری کی خواہش دل میں لیے بار بار نکلتی ہے، ہر بار آس لگاتی ہے، ہر بار اس کا دل ٹوٹتا ہے مگر وہ امید کے دھاگے سے بندھی رہتی ہے۔
ماضی میں بہت سے لیڈرز نے قوم کو بے شمار خواب دکھائے، انہیں ہاتھ پکڑ کے اپنے ساتھ بیچ سمندر میں لے گئے اور پھر ہاتھ چھوڑ دیا۔ لوگوں کے دل ٹوٹے مگر پھر انہوں نے کسی دوسرے سے امیدیں باندھ لیں۔ دوسری بار بھی یہی ہوا تو ہارے ہوئے لوگ کسی اور کے ساتھ ہو لیے۔ بہتری کی خواہش کو کبھی مرنے نہیں دیا۔ اچھا ہونے کی آرزو کو ہمیشہ جگا کے رکھا۔ ستر سال سے لوگوں نے اپنے اپنے لیڈرز کی آواز پہ لبیک کہا، ان کے لیے نعرے لگائے، جان تک دینے کے وعدے کیے، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا خواب دیکھا اور مایوس ہو کر بھی خود کو گرنے نہ دیا۔ امجد صاحب کا شعر ہے کہ
غارت گری کے بعد بھی روشن تھیں بستیاں
ہارے ہوئے تھے لوگ مگر حوصلے میں تھے
لاہور جلسے سے ایک رات پہلے مینار پاکستان گیا تو میلے کا سماں تھا۔ رات کے تین بجے تک خواتین، بچے، بزرگ اور جوان جدا جدا رنگ لیے جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والے لوگ بھی پارکنگ سے لیکر کر سٹیج تک جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔ کوئی ٹی شرٹس بیچ رہا ہے، کسی نے پی ٹی آئی کے جھنڈے والی ٹوپی کا سٹال لگا لیا ہے، کوئی شرکا کے چہروں پر سرخ اور سبز رنگ کی دو لکیریں کھینچنے کے لیے پینٹ لیے آوازیں لگا رہا ہے، کوئی آئیسکریم ٹرائی سائیکل لیے کھڑا ہے۔ لوگ ٹولیوں کی شکل میں نعرے لگاتے ایک کونے سے دوسرے کونے کی جانب گھومتے نظر آرہے تھے۔
اس بار عمران خان نے لوگوں کو ایک مختلف نعرے پر کھڑا کیا ہے جو پاکستان میں کبھی سیاست کا موضوع نہیں رہا۔ کم از کم بھٹو کے بعد تو ہرگز دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہاں سڑکیں اور موٹرویز بنانے کی سیاست تو ہوئی ہے، نالیاں اور گلیاں بنانے کی سیاست بھی ہوئی ہے، ڈسپنسریاں اور سکول بنانے کے وعدے بھی ہوئے ہیں مگر قوم بنانے اور اسے آزادی کا درجہ دینے کا موضوع عمران خان نے کامیابی سے عوام کے ذہنوں میں اتار دیا ہے۔ اب لوگوں سے پوچھیں وہ جلسے میں کیوں آئے ہیں، وہ کہتے ہیں اپنی خود داری کے لیے آئے ہیں، حمیت و غیرت کی خاطر آئے ہیں۔ صحیح یا غلط، لوگ سمجھتے ہیں کہ کرپٹ لوگ دھوکہ دہی اور غیر ملکی سازش کے ذریعے ذاتی مفادات کے لیے ملک پر مسلط ہو گئے ہیں اور یہ کہ عمران خان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے۔
چند ماہ پہلے تک یہ قوم کا موضوع نہیں تھا۔ مہنگائی اور بیڈ گورننس کے باعث لوگ عمران خان سے ناراض تھے۔ مہنگائی اب بھی وہیں ہے، بلکہ روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، مگ ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی اب جلسوں میں آنے والے عوام کا موضوع ہی نہیں رہی۔ وہ ایک نئے موضوع کے ساتھ میدان میں نظر آتے ہیں۔
نئی حکومت کی بے حکمتی دیکھئے کہ عمران خان کے تمام ناکامیوں، مہنگائی، ڈالر ریٹ اور دیگر چیزوں کو اپنے سر لے لیا ہے۔ اب پیٹرول کی قیمت بڑھائیں گے تو تنقید سہیں گے، مہنگائی میں اضافہ ہو گاتو عوام دشنام طرازی کریں گے۔ اب فرض کیجئے کہ پیٹرول کی قیمت میں پچیس تیس روپے لیٹر اضافہ کر دیا جاتا ہے جو کہ کرنا ہی ہوگا، توعوام اپنی توپوں کا رخ شہباز شریف کی طرف کر لیں گے جس سے وہ غیر مقبول ہوں گے اور اگلے انتخابات میں انہیں عوام کے شکووں اور ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اپوزیشن صرف ایک سال اور انتظار کر لیتی، تقریبا یقینی تھا کہ انہیں ہی اقتدار ملتا اور عمران خان کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑتا۔ پھر نئی حکومت کے پاس پانچ سال ہوتے، وہ اپنی پالیسی بناتے اور اپنے مطابق حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے۔
شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کے نیم مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی ہے۔ جلسوں میں غصے سے بھرے لوگ عمران خان کے مخالفین کو لتاڑتے نظر آتے ہیں اور انہیں دو تہاتی اکثریت دلانے کا وعدہ کرتے ہیں۔
جلسوں میں کس کی ہار ہوتی ہے اور کس کی جیت، یہ ایک اہم موضوع تو ہے، مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اس وقت پیچیدہ حالات سے دوچار ہے۔ ڈالر کا ریٹ روزانہ بڑھ رہا ہے، پچھلے چار دن میں اس کی قدر میں تقریبا پانچ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں تو یہ190 کو چھو رہا ہے۔
دوسری طرف مہنگائی قابو سے باہر ہونے کو ہے، آئی ایم ایف اگلی قسط کے اجراء کے لیے سخت شرائط منوانے پہ مصر ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث کاروبار ٹھپ ہو کے رہ گیا ہے۔ کاروباری طبقے کا مطالبہ ہے کہ کم از کم کوئی پالیسی واضح تو کی جائے، اندازہ توہو ڈالر کہاں رکنے والا ہے اور انہیں مارکیٹ میں کیا پوزیشن لینی ہے۔ سڑکوں پہ نکل آنے والی احتجاجی سیاست نے کچھ لوگوں کی بے چینی بڑھا رکھی ہے۔ لہذا استحکام آتا دکھائی نہیں دے رہا۔
حل صرف ایک ہی ہے کہ جلد از جلد شفاف اور منصفانہ انتخابات کی طرف بڑھا جائے۔ نیوٹرل ہونے کا وعدہ پورا کیا جائے اور عوام کے ووٹوں سے جو بھی منتخب ہو کر آئے وہ پانچ سال کے لیے حکومت بنائے اور عوام کے لیے فیصلے کرے۔
قوم بہتری کی خواہش مند ہے، یہ مایوس نہیں ہوتی، امید نہیں توڑتی، خواب دیکھنا نہیں چھوڑتی، بہتری کی خواہش دل میں لیے بار بار نکلتی ہے، ہر بار آس لگاتی ہے، ہر بار اس کا دل تو ٹوٹتا ہے مگر امید کے ساتھ رشتہ نہیں توٹتا، زندہ قوموں کی یہی نشانی ہے۔