سپریم کورٹ جانے والے تقریبا چھ راستوں میں سے صرف ایک کھلا ہوا تھا، وہاں بھی سیکیورٹی صورتحال غیر معمولی تھی۔ احاطہ عدالت میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا کہ 63-A کی تشریح کے کیس کی غیر معمولی اہمیت کاہر کسی کو اندازہ ہے۔ پارکنگ میں بے انتہا رش اور غیر معمولی چیکنگ صورتحال کی حساسیت اور اہمیت کا پتہ دے رہی تھی۔ پروٹوکول والی سرکاری گاڑیاں چیختی دھاڑتی، راستہ بناتی پارکنگ کی طرف بڑھ رہی تھیں، سماعت شروع ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے بھی گاڑی مین پارکنگ تو درکنار، اس سے ملحقہ بہت بڑے پلاٹ میں کھڑی کرنے کی جگہ بھی نہیں تھی اور عملے نے گاڑی اس جھاڑیوں والے اونچے حصے میں لگوائی جہاں شاید پچھلے کئی سال میں کوئی گاڑی کھڑی نہ کی گئی ہو گی۔
داخلی دروازے پر بہت سے لوگ اندر جانے کی کوشش میں تھے۔ صحافی، وکلا اور پارلیمینٹیرینز اپنی شناخت کروانے کے بعد باری باری اندر داخل ہو پارہے تھے۔ کراچی کے ایک ایم این اے کو میں نے داخلی راستے کے ایک کونے میں کھڑے پایا، شاید وہ اپنی شناخت نہیں کروا پا رہے تھے، ایک گھنٹے بعد میں نے انہیں کمرہ عدالت میں کونے والی آخری کرسی پر بیٹھے ہوئے پایا۔ کمرہ عدالت میں بے پناہ رش تھا، اتنا کہ جو جہاں کھڑا ہو گیا وہاں سے کسی کو دھکیلے بغیر ایک انچ آگے پیچھے نہیں ہو سکتا تھا۔
میں کمرہ عدالت میں داخل ہوا توصحافیوں کی نشستوں کے قریب ایک جگہ رانا ثناء اللہ کامران مرتضٰی سے تکنیکی پہلو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بار بار سوال کرتے اور کامران مرتضی دھیمے لہجے میں انہیں سمجھانے لگتے۔ تھوڑی ہی دیر میں شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، شہبازگل، حماد اظہر، شبلی فراز، اسد عمر، ملیکہ بخاری، فیصل جاوید، ندیم افضل چن، شیری رحمن، نئیر بخاری، اور احسن اقبال بھی کمرے میں داخل ہوئے اور اپنی اپنی نشستیں تلاش کرنے لگے۔ جسے جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا۔ نشستوں کی ترتیب بڑی دلچسپ تھی۔
اسد عمر کوندیم افضل چن کے برابر والی کرسی پہ جگہ ملی، شاہ محمود قریشی شیری رحمن کے پہلو میں براجمان ہوئے۔ احسن اقبال فیصل جاوید اور شبلی فراز کے عین بیچ میں بیٹھے تھے۔ فواد چودھری کو جگہ نہ ملی تو وہ اپنے بھائی فیصل چودھری کی کرسی کے بازو پر ہی بیٹھ گئے۔ تھوڑ ی دیر میں ان کے سٹاف کا ایک بندہ ایک معصوم سے صحافی سے ان کے لیے کرسی مانگ کے لے گیا۔ شہاز گل اور حماد اظہر اکٹھے بیٹھے تھے۔ بعد میں شہبازگل اٹھ کے چلے گئے تو ملیکہ بخاری ان کی جگہ بیٹھ گئیں جو پہلے الگ بیٹھی تھیں۔ کمرہ عدالت میں اعظم نذیر تارڑ، عطاتارڑ، احسن بھون، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، رضا ربانی، فاروق ایچ نائیک اور دیگر کئی اہم رہنما بھی موجود تھے۔
سماعت شروع ہونے سے پہلے صحافیوں نے فواد چودھری کو گھیر رکھا تھا اور ہنسی مزاق میں طرح طرح کے سوال کر رہے تھے، فواد چودھری بھی اسی انداز میں اٹھیکیلیاں کرتے رہے۔ سماعت شروع ہونے کے ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد فواد چودھری، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور دیگر کچھ رہنما تو چلے گئے لیکن کئی رہنما سماعت کے اختتام تک بیٹھے رہے۔
معاملہ چونکہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور ابھی صرف ایک ہی سماعت ہوئی ہے اس لیے زیادہ تبصرہ تو نہیں ہو سکتا لیکن دو باتیں واضح ہیں۔ ایک تو یہ کیس ایک دو سماعتوں میں سمٹنے والا نہیں۔ دوسرا اپوزیشن کی کوشش اور ضرورت ہے کہ 28مارچ کی ووٹنگ سے پہلے کیس کا فیصلہ سامنے آ جائے، ورنہ خدشہ ہے کہ تاحیات نااہلی کے خوف سے کچھ منحرف اراکین ووٹ ڈالنے نہیں جائیں گے۔ عدالت کی خواہش تھی کہ اگلی سماعت پیر کو رکھی جائے مگر اپوزیشن کے نمائندوں کا اصرار تھا چونکہ جمعہ سے اسمبلی کا اجلاس شروع ہے اس لیے اس کیس کو جلد نمٹایا جائے۔ لہذا سماعت نماز جمعہ کے بعد کے لیے مقرر کر دی گئی۔
عدالت کے سامنے دو اہم سوال ہیں۔ نا اہلی کی مدت کیا ہو گی؟ اور نا اہلی کب سے شروع ہو گی؟ حکومت پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے اراکین کی تاحیات نا اہلی چاہتی ہے تاکہ جمہوری نظام شفاف بنیادوں پر استوار ہو۔ حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ ووٹ دینے والے رکن کے ووٹ کے شمار کا فیصلہ سپیکر پر چھوڑ دیا جائے، سپیکر چاہیں تو ووٹ دینے والے شخص کے قدم کو آئین سے متصادم قرار دے کر ووٹ رد کر دیا جائے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے اتفاق کیا کہ ووٹ تو کاسٹ ہو گا لیکن سپیکر پہ چھوڑ دیا جائے کہ ووٹ کا کیا کرنا ہے۔
سماعت کے دوران 1993 کا نواز شریف کا فیصلہ بھی عدالت کے سامنے رکھا گیا۔ اس عدالتی فیصلے میں لکھا گیاتھا کہ نواز شریف کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا گیا لہذا وہ اپنی آئینی مدت پوری کریں گے۔ اس فیصلے کو بنیاد بنا کر عدالت سے استدعا کی گئی کہ ایسے تمام اقدامات جو کسی منتخب حکومت کے خاتمے کا باعث بنتے ہوں انہیں روکا جانا چاہیے تاکہ جمہوری و پارلیمانی نظام مضبوط ہو۔
بلا شبہ یہ پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین کیس ہے۔ اس کیس میں فلور کراسنگ، ہارس ٹریڈنگ، ڈی سیٹ، نا اہلی، نااہلی کی مدت، سپیکر کے اختیاراور پارٹی پالیسی سے انحراف جیسی اصلاحات کی تشریح یا تعین ہونا ہے۔ عدالت نے اہم ترین جمہوری روایات کو پروان چڑھانے کے لیے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز کو آئینی راہ دکھانی ہے۔ تمام نظریں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے معزز ترین پانچ رکنی پنچ پہ لگی ہیں۔ خالد جاوید خان، اعظم نذیر تارڑ، کامران مرتضی، اور فاروق ایچ نائیک جیسے بڑے بڑے دماغ عدالت کی معاونت کے لیے موجود ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ معاملہ ایک دو سماعتوں میں سمٹتا دکھائی نہیں دیتا اور اہم ترین معاملات میں جلد بازی ہونی بھی نہیں چاہیے۔
پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے اہم ترین دوراہے پر کھڑا ہے۔ کیا تاریخ رقم ہونی ہے، چند دن میں اندازہ ہو جائے گا۔