جہاندیدہ، پڑھے لکھے، قابل اور عظیم دماغوں کے ذریعے تبدیلی لانا کونسا کمال کی بات ہے۔ دنیا میں اگر کسی نے قابل وزرا کے بل بوتے پر ایسا کر دکھایا ہے تو کیا کمال کیا۔ اصل تعریف کے قابل تو عمران خان ہیں جو فیصل واوڈا جیسے وزرا کے ذریعے تبدیلی لائیں گے۔ عمران خان کو یقین ہے کہ وہ انقلاب لائیں گے اور اپنے انہی با کمال وزیروں کے ذریعے ہی لائیں گے۔ عمران خان کو دوہرا چیلنج درپیش ہے، ایک، تباہ حال ملک کو اندھیروں سے نکالنا، اور دوسرا اُن چراغوں کے ذریعے روشنی کرنا جن کے اپنے اندر چنگاری کے آثار تک نہ دکھتے ہوں۔ عمران خان کو یقین ہے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ فیصل واوڈا نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر کئی بار دکھائے ہیں اور مجال ہے وزیر اعظم کبھی متفکر ہوئے ہوں یا ان کا اپنے قابل وزیر پر سے اعتماد کبھی متزلزل ہوا ہو۔ تب جب وہ کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعد اپنا پستول لہراتے ہوئے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے یاتب جب وہ گرائے گئے بھارتی جہاز کی لاش پر پائوں رکھ کر فتح کا جشن مناتے نظر آئے تھے۔ وزیر اعظم ایک بار بھی تو ناراض نہیں ہوئے، کوئی تنبیہہ کی نہ ڈانٹ پلائی، کوئی وارننگ دی نہ ایسی حرکتوں سے روکا۔ تبھی تو نوبت یہاں تک آگئی کہ وزیر موصوف فوجی بوٹ لے کر اسٹوڈیو میں پہنچ گئے اور لائیو شو میں ٹیبل پر رکھ دیا۔ وزیر موصوف کیا یہ بھی نہیں جانتے کہ بوٹ کو سوشل میڈیا پر فوج کی سیاست میں مداخلت اور سیاسی قوتوں پر عسکری بالادستی کے استعارے کے طورپر منفی انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ وہ پراپیگنڈا ہے جو فوج مخالف قوتیں ہمیشہ سے کرتی اور یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ فوج ہی دراصل اس ملک میں فیصلہ کرنے کی اصل قوت ہے اور سیاستدان تو بس بوٹ پالش کا کام کرتے ہیں۔ بوٹ کے اس استعارے کے ذریعے تین اطراف سے دشمنوں میں گھری فوج اور اس ملک کے سیاستدان، دونوں ہی کی تضحیک کی جاتی رہی ہے۔ وزیر موصوف سے سوال ہے کہ انہوں نے اپنی اس حرکت سے فوج اور سیاستدانوں کی عزت میں اضافہ کیا ہے یا ان کی تضحیک کی ہے؟ وزیرصاحب کو یاد ہو گا کہ کابینہ میں انہی کے ایک ساتھی فواد چودھری نے پچھلے دنوں اس بات پر بار بار خوشی کا اظہار کیا تھا کہ سنجیدہ معاملات میں تمام سیاسی قوتیں اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہو گئیں اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے میں یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ فواد چودھری نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ہماری نہیں بلکہ تمام پارٹیوں اور سارے پاکستانیوں کی فوج ہے اسی لیے سب نے اس بل کی حمایت کرنے کا قدم اٹھایا ہے۔ مگر آج فیصل واوڈا صاحب نے فواد چودھری صاحب کے فلسفے کی نفی کرتے ہوئے باور کرایا کہ ن لیگ نے آرمی ایکٹ کے معاملے میں ووٹ ڈال کر کوئی اچھا کام نہیں کیا بلکہ فوج کی خوشامد کی ہے۔ بھئی اگر ن لیگ کا یہ عمل قابل اعتراض ہے تو آپ نے اس قابل اعتراض عمل کے لیے انہیں راضی کرنے کی کوشش ہی کیوں کی تھی اور اس پر فواد چودھری نے خوشی کا اظہار کیوں کیا تھا۔ قمر زمان کائرہ نے صحیح سوال اٹھایا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے کہنے پر نہیں بلکہ فوج کے کہنے پر ووٹ دیا؟
کچھ دن پہلے جب آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ میں بھیجنے کا فیصلہ سنایا تو ایک پریس کانفرنس میں شیخ رشید سے سوال کیا گیا کہ جناب اس اہم ترمیم کے لیے اپوزیشن کو ووٹ دینے کے لیے کیسے منایا جائے گا۔ تو موصوف نے فرمایا کہ آپ فکر نہ کریں جن کا مسئلہ ہے وہ خود ہی ووٹ لے لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم نے اس وقت اپنی کابینہ کے سینئر ترین وزیر کو بلا کر پوچھا تھا کہ جناب شیخ صاحب آپ کی اس بات کا مطلب کیا ہے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ فوج جو وزیر اعظم کے ماتحت ہے وہ اپنے طور پر اپوزیشن سے رابطے کر کے معاملات کو طے کرتی ہے؟ یا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت نے اہم ترین سیاسی معاملات پر اپوزیشن سے مذاکرات کا اختیار فوج کو دے دیا ہے؟ یہ سوال اگر وزیر اعظم نے اس دن شیخ رشید سے پوچھ لیے ہوتے تو آج فیصل واو ڈاکو اس حرکت کی جرأت نہ ہوتی۔ لیکن حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ اب تک ایسی کوئی خبر میڈیا پر نشر نہیں ہوئی کہ وزیر اعظم نے فیصل واوڈا سے جواب طلب کیا ہو، وضاحت مانگی ہو، شو کازنوٹس دیا ہو یا ناراضی کا اظہار کیا ہو۔ گو یا قوی امید ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے نظر انداز کرنے کا یہ رویہ آئندہ بھی ایسے واقعات کو جنم دیتا رہے گا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے وزرا کی ناقابل برداشت باتوں یا حرکتوں کو برداشت کیا۔ فواد چودھری صاحب ایک نہیں دو مرتبہ اپنے مخالفین پر حملہ آور ہوئے، اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ اعظم سواتی صاحب اپنے ملازمین کے ذریعے اپنے غریب ہمسائے پر حملہ آور ہوئے وزیر اعظم کی جانب سے واقعے کو ہضم کر لیا گیا۔ خود فیصل واوڈا صاحب تین مرتبہ پہلے بھی عجیب و غریب اسٹنٹس کرتے پائے گئے وزیر اعظم نے مسکرا دینے پر اکتفا کیا۔ پنجاب کے ایک وزیر کی طرف سے ایک سے زیادہ مرتبہ ایک سے زیادہ اینکرز کو دی گئی گالیاں سوشل میڈیا پر نشر ہوئیں، وزیر اعظم کی طرف سے ناگواری کے اظہار کی کوئی خبر ہم تک نہ پہنچی۔ نظر انداز کر دینے کا رویہ اگر سیاسی فائدہ پہنچا رہا ہے تودرست اگر ایسا نہیں ہے تو وہ حکمت بتایئے جس کے تحت ان وزیروں کی رسی ڈھیلی چھوڑ دی گی ہے۔ ایسے ایسے مزاحیہ بیان اس کابینہ کے وزرا کی زبان سے ادا ہو چکے ہیں کہ آپ سنیئے اور سر دھنتے چلے جائیے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں آپ نے فرمایا کہ ایک مہینے میں ملک میں اتنی نوکریاں آنے والی ہیں کہ نوکریاں زیادہ اور کرنے والے کم ہو جائیں گے۔ ایک مہینہ تو کیا ایک سال گزر گیاکسی نے ان سے اس پھڑ کے بارے میں نہ پوچھا کہ جناب یہ خیال آپ کو کس بنیاد پر سوجھا تھا۔ ایسے ہی مراد سعید صاحب نے الیکشن سے پہلے ملک کا سارا قرضہ اتارنے کا فارمولہ بتایا تھا مگر حکومت آنے کے بعد قرضہ اترتا تو کیا مزید چڑھ گیا۔
وزیر اعظم کی خدمت میں بس ایک گزارش ہے کہ تبدیلی غیر سنجیدہ اذہان نہیں لاتے، غور وفکر کرنے اور اہم معاملات پر سنجیدگی کا رویہ رکھنے والی ٹیم تبدیلی لا سکتی ہے، تبدیلی لانی ہے تو وزرا کے مزاج میں تبدیلی لائیے۔