وقت بدلتا ہے تو بہت کچھ بدل جاتا ہے یہاں تک کہ الفاظ اور اصطلاحات کے معانی بھی۔ زمانوں کاسفر قوموں کی ترجیحات بدلتا ہے تو مصلحت اور مفادات، اصول اور سچائی کی پرچھائیاں بن جاتی ہیں جو اپنے اصل سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کے باوجود مہذب دنیا منافقت کا لبادہ اوڑھے رکھتی ہے اور مہذب کہلوانے پر مصر رہتی ہے، ہم تیسری دنیا کے باشندے مجبور ہیں کہ ان کی بتائی گئی Deffinitions کے مطابق بے معنی الفاظ سے اپنے دفترسیاہ کرتے رہیں حتیٰ کہ مقدر بھی۔ حقیقت میں دیکھیں تو ماضی میں مہذب دنیا کی جانب سے دی گئی اصطلاحات کے معانی و مفہوم عصرِ حاضر کی حقیقتوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کچھ الفاظ یا اصطلاحات مثال کے طور پہ پیش خدمت ہیں جن کی تعریف نئے سرے سے ہونے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ: طاقتور ممالک کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے قائم ہونے والے ادارے کا نام اقوام متحدہ ہے جس کی آنکھیں اور کان اکثر و بیشتربند رہتے اور مخصوص مواقع پرکھلتے ہیں۔
ویٹو پاور: اصول، ضابطے اور اخلاقیات سے مبرا یہ وہ اختیار ہے جس کے تحت بڑی طاقتوں کو قانون کے دائرے سے باہر رہ کر دنیا میں لاقانونیت پھیلانے کا قانونی راستہ دیا گیا ہے۔
مسلم امہ: سپر پاورز کی حمایت کے لیے ہر وقت تیار رہنے اور غیروں کی آنکھ کے اشاروں پر سانس لینے والے اسلامی ممالک کا گروہ مسلم امہ کہلاتا ہے۔
او آئی سی: مسلم ممالک کی ایسی تنظیم جو مسلمانوں کی حمایت میں اقدامات تو کیا بیانات دینے سے بھی خوف کھاتی ہے۔
مودی: انتہا پسندی کی وہ شکل جو پوری دنیا کے لیے قابل قبول ہے۔
آر ایس ایس: دنیا کی واحد دہشت گرد تنظیم جس کی حکومت کوپوری دنیا نے جائز تسلیم کر رکھا ہے۔
کشمیری: حق خود ارادیت کی جنگ لڑنے والی وہ بدنصیب قوم جو اندھوں اور بہروں سے اپنا حق مانگنے پر مجبور ہے۔
امریکہ : ایسی با اصول سپر پاور جو اپنے ایک شہری کی جان کو محفوظ بنانے کے لیے لاکھوں بے گناہوں کا خون بہانے کو اپنا حق سمجھتی اور دنیا اس کے اس کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔
پراکسی وار: جھوٹ، مکر، فریب اور بزدلی کے ساتھ لڑی جانے والی جنگوں کو پراکسی وارز کہتے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کے چھوٹے ممالک میں جا بجا بکھری مہذب دنیا کی وہ ناجائز اولادیں ہیں جن کو تسلیم کرنے کی وہ جرأت نہیں رکھتیں مگر اس کے ثمرات سمیٹنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتیں۔
نیٹو: دنیا بھر سے وسائل سمیٹ کر مل بانٹنے والے ممالک کی افواج کا ایک ایسا گروہ جس کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اسے امن قائم کرنے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے یا امن تباہ کرنے کے لیے۔
انتہا پسندی: دنیا کی عظیم طاقتوں کے مفادات کے خلاف سوچنے کا نام انتہا پسندی ہے۔
افغانستان: وہ سر زمین جسے دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے نئے ہتھیاروں کی جانچ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
مسلمان: عصر حاضر کی ایسی خوفزدہ قوم جس کا اپنا ماضی اس کے مخالفین کے لیے آج بھی خوف کی علامت ہے۔
دہشت گرد: اقوام متحدہ سے اجازت لیے بغیر کسی دوسرے کو مارنے والا دہشت گرد کہلاتا ہے۔
Collateral Damage: عام افراد کا ایک گروہ اگردنیا کو محفوظ بنانے کی خاطرکسی بڑے ملک کو اپنی جان کی قربانی پیش کر کے اس کے عظیم مقصد کا حصہ بن جائے تو اسے Collateral Damage کہا جاتا ہے۔
امن عمل یا پیس پراسس: بڑی طاقت کو چھوٹی طاقت سے ہونے والی شکست تسلیم نہ کرنے کے عمل کا نام پیس پراسس ہے
مہلک ہتھیار: تباہی پھیلانے والے وہ ہتھیار جو طاقتور ممالک کے پاس نہ ہوں مہلک ہتھیار کہلاتے ہیں۔ وہی ہتھیار طاقتور ممالک کے پاس آ جائیں تو مہلک نہیں رہتے۔ مہذب دنیا: طاقت کے بنیاد پر اصول وضع کرنے والی دنیا کو مہذب دنیا کہتے ہیں۔
آئی ایم ایف: ایسا مالیاتی ادارہ جو افراد کو بدحال بنا کر ان کے ممالک کوخوش حال بنانے کے فلسفے پر قائم ہے۔ یہ ادارہ کامیابی سے چل رہا ہے حالانکہ اسے کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ یہ وہ ادارہ ہے جو کبھی کسی ملک کی معیشت کو درست نہیں کر پایا لیکن اس کے اعتماد میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ جو ایک بار اس کے چنگل میں پھنس جاتا ہے کبھی باہر نہیں آ پاتا۔
ایف اے ٹی ایف: من مانیاں کرنے والے ممالک پر دہشت گردی کاالزام لگا کر معاشی پابندیاں لگانیوالے ادارے کا نام ایف اے ٹی ایف ہے۔ دنیا کے تمام ممالک اس کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ اس ادارے کی آنکھیں کچھ ممالک کے لیے کھلی اور کچھ کے لیے مسلسل بند رہتی ہیں۔
نسل پرستی: دوسری نسل کے لوگوں سے محض ان کے رنگ و نسل کے بنیاد پر نفرت کرنا نسل پرستی کہلاتا ہے یہ وہ نظریہ ہے جس کے مخالفین آج بھی اس کے سب سے بڑے پیروکار ہیں۔
بھارت: کرہ ٔ ارض پر موجود ایک شدت پسند ہندو ریاست جہاں دوسری قومیتیں خوف کے سائے میں زندگی گزارتی ہیں مگر پھر بھی یہ خود کو سیکیولر انڈیا کہلوانا پسند کرتا ہے۔
پاکستان: ایک ایساخطۂ زمین جہاں برسوں سے خوش قسمتی اور بد قسمتی کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اسلامی "جمہوریہ" پاکستان: ایک ایسا جمہوری ملک جو آج تک اس مخمصے میں ہے کہ کونسا طرز حکومت اس کے لیے بہترہے۔ اب آپ کی مرضی ہے پرانی اصطلاحات کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیجئے یا پھر جیسے چل رہا ہے، چلنے دیجئے۔