یہ اہم نہیں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اعتماد کا اظہار کر رہے تھے بلکہ زیادہ اہم یہ ہے کہ وزیر اعظم کے پاس پُر اعتماد نظر آنے کے دلائل موجود تھے اور وہ خود کو صرف پُراعتماد ظاہر ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ پُر اعتماد تھے بھی۔
عمران خان آ کر بیٹھے تو موڈ خوشگوار تھا۔ سنجیدہ موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے چٹکلے چھوڑتے رہے۔ سبھی اہم معاملات پر ان سے سخت سوالات ہوئے اور انہوں نے نہایت تحمل سے تقریبا تمام سوالات کا جواب دیا، سوائے دو سوالوں کے۔ ایک تو علیم خان کے بارے میں بار بار سوال کرنے پر بھی وہ گول کرتے رہے اور ان کے بارے میں ایک جملہ بھی اپنی زبان سے ادا نہیں کیا۔ لہذا اندازہ نہ ہو سکا کہ علیم خان کو وزیر اعلی بنانے کے وہ حق میں ہیں یا نہیں۔ جہانگیر ترین کے بارے میں البتہ انہوں نے ضرور کہا کہ جتنا میں جہانگیر ترین کو جانتا ہوں وہ کبھی چوروں کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
دوسرا سوال جس کا جواب انہوں نے نہ دیا وہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن سے متعلق تھا۔ ایک رپورٹر کے سوال کا دوسرا حصہ مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تھا۔ عمران خان پہلے حصے کا جواب دے کر آگے بڑھ گئے اور اصل سوال گول کر گئے، انہیں ٹوک کر دوبارہ پوچھا گیا کہ ایکسٹینشن والا سوال تو رہ گیا۔ جواب میں انہوں نے کہا" اس سوال کو رہنے دو، ابھی نومبر میں بہت وقت پڑا ہے۔ میں ابھی اس بارے میں سوچ ہی نہیں رہا"۔
سوا گھنٹے پر مشتمل اس نشست میں وزیر اعظم عمران خان نے متعدد بار ایسے جملے کہے جس سے ان کے پُر اعتماد ہونے کا اندازہ ہوتا تھا۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا آج کی تاریخ اور وقت نوٹ کر لو، اگلے چند دن میں میری حکومت زیادہ تگڑی ہونے جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد اپوزیشن اتنی بُری طرح فلاپ ہو گی کہ 2028 تک میں انہیں سنبھلنے نہیں دوں گا۔ عمران خان کا ایک اور جملہ یہ تھا کہ اس وقت ساری مائنڈ گیم چل رہی ہے اور میں اس کا ایکسپرٹ ہوں۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا بے فکر رہیں آپ کے کپتان نے فیلڈ سیٹ کی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہ میں جب کرکٹ کھیلتا تھا تو پورا ہوم ورک کر کے جاتا تھا، حریف کی تمام ممکنہ چالوں کے جواب میں متعدد چالیں سوچ کے رکھتا تھا۔ اب بھی مجھے پتہ ہے کہ میرے مخالف کیا کیا راستے اختیار کر سکتے ہیں اور میں نے ان سب کا توڑ تیارکر رکھا ہے۔ ان سے سوال ہوا کیا اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کبھی چوروں کے گروہ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔
ان تمام جملوں اور جس اعتماد سے یہ کہے گئے اس سے یہی اندازہ ہوا کہ عمران خان حد سے زیادہ پُر اعتماد ہیں۔ کئی ایسے لوگ جو اس میٹنگ میں شریک نہیں تھے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے تو یہی کہنا تھا کہ وہ پُر اعتماد ہیں، ظاہر ہے وہ یہ تو نہیں کہیں گے کہ وہ گھبرائے ہوئے ہیں۔ اس بارے میں میں یہ کہوں گا کہ دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو وہ حقیقت میں پُر اعتماد تھے، یا پھر انہیں خود فریبی کی حد تک یقین تھا کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اندر سے گھبرائے ہوئے ہوں اور ہمیں کمال ایکٹنگ سے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ لگتاتھا وہ جو کہہ رہے ہیں اسی پہ یقین رکھتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے بارے میں بھی اتنے ہی مطمئن تھے جتنا اپنے بارے میں ؟ یہ سوال ان سے مختلف انداز میں دوہرا دوہرا کے پوچھا گیا۔ وزیر اعظم نے عثمان بزدار کی کئی حوالوں سے تعریف تو کی لیکن یہ نہیں کہا کہ میں ہرگز عثمان بزدار کو تبدیل نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا" عثمان بزدار نے بہت ترقیاتی کام کرائے، ایم پی ایز ان سے بہت خوش ہیں لیکن عثمان بزدار میڈیا میں اپنے اچھے کاموں کی تشہیر نہیں کر سکے۔
پنجا ب میں گروپنگ ہے، وہ لوگ جو خود وزیر اعلی بننا چاہتے ہیں وہ انہیں ہٹانا چاہتے ہیں "۔ عمران خان نے عثمان بزدار کے بارے میں یہ سب کچھ کہا لیکن یہ نہیں کہا کہ میرا فیصلہ اٹل ہے اور عثمان بزدار تبدیل نہیں ہوں گے۔ وزیر اعلی کی تبدیلی پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں ہوتا، بہت سے پہلو دیکھنے پڑتے ہیں، بہت سوچ سمجھ کے فیصلہ کرنا پڑتا ہے، ہٹائیں تو کس کو لائیں، وغیرہ وغیرہ۔
یہ کالم پڑھنے کے بعد قارئین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ کیا وزیر اعظم کے ذہن میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا شائبہ تک نہیں ؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی کارستانیوں کا پوری طرح اندازہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ" میرے خلاف کئی عالمی طاقتیں کام کر رہی ہیں اور اربوں روپیہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ایم این ایز کو اٹھارہ اٹھارہ کروڑ روپے کی آفر کی جا رہی ہے۔ بعض کو اس سے بھی زیادہ۔ ساتھ میں ٹکٹ بھی آفر کیے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ان کے لیے آسان فیصلہ نہیں ہے۔ فلو ر کراس کرنے پر وہ نا اہل ہو جائیں گے۔ اگلے الیکشن میں بھی ان کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں "۔ ان باتوں سے اندازہ ہوا کہ وزیر اعظم کو یہ خدشہ ضرور تھا کہ اتنی بڑی آفر پر ان کے کچھ لوگ بک سکتے ہیں اور ان کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں۔
عین اس وقت جب ہماری وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات ہو رہی تھی، اسی وقت قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جا رہی تھی۔ کھیل اعصاب شکن مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، دونوں ہی فریق معاملے کی سنجیدگی سے آگاہ ہیں۔ جیتنے اور ہارنے والے دونوں کے سیاسی مستقبل پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور اس تحریک عدم اعتماد کو پاکستان کی تاریخ میں دیر تک یاد رکھا جائے گا۔