وزیر اعظم کے چہرے سے صاف نظر آتا تھا کہ وہ اُتنے پر اعتماد نہیں ہیں جتنے حکومت سنبھالتے ہوئے تھے۔ بگڑتی معیشت اور بڑھتی مہنگائی ان کی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دو غیر ملکی ناکام دوروں کے بعد ان کی تشویش بڑھ گئی ہے۔ دودن میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں اچانک کیوں بڑھ گئیں اور واپس کیوں نہیں آپا رہیں، ان کے پاس اس کا واضح جواب نہ تھا۔
اسٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار ہے، ڈالر قابو میں نہیں آ پا رہااور قابو میں رکھنے کی کوئی حکمت عملی بھی ان کے پاس دکھائی نہیں دیتی۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے کے سوا ان کے پاس چارہ نہیں، ڈیزل کی قیمتیں بڑھیں تو مہنگائی کو مزید بڑھنے سے روکنا ممکن نہیں ہو پائے گا، عمران خان کا دبائو اتنا ہے کہ حکومت چاہتے ہوئے بھی پیٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھا پا رہی۔ کیسے ممکن ہے وزیر اعظم کے ذہن میں یہ بات نہ آتی ہوکہ بے وقت کی حکومت لے کر کہیں غلطی تو نہیں کر دی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی باتوں سے صاف نظر آتا ہے کہ ان کے اوپر واضح طور پر تین دبائو ہیں۔ پہلا، اپنے اوپر لگے سازش کے دھبے کو دھونا، دوسرا، معیشت کو سنبھالنا اور مہنگائی میں کمی لانا اور تیسرا عمران خان کے احتجاج اور عوامی دبائو سے نمٹنا۔ فی الحال وزیر اعظم کے پاس ان تینوں مشکلات سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی۔
مختلف طرح کے دبائو کا شکار ہو کر شہباز شریف غلطیاں کر رہے ہیں۔ مہنگائی کے دبائو کا شکار ہو کر انہوں نے کپڑے بیچ کر سستا آٹا دینے جیسی مضحکہ خیز بات کی اور اپنا مذاق بنوایا۔ عمران خان کے سازش کے بیانیے کے دبائو کا شکار ہو کر انہوں نے اعتراف کر لیا کہ امریکہ نے دھمکی تو واقعی دی ہے، مداخلت بھی کی گئی مگر سازش نہیں ہوئی۔ اسلام آباد مارچ کے دبائو کا شکار ہو کر وہ اسے روکنے اور گرفتاریاں کرنے جیسی ایک اور غلطی کرنے جا رہے ہیں۔
لاہور میں اینکر پرسنز سے ہونے والی ملاقات میں شہباز شریف نے اپنی مجبوریوں اور مسائل کا اس دردناک انداز میں ذکر کیا کہ ایک صحافی کو کہنا پڑا کہ آپ کی باتیں سن کر آپ سے ہمدردی کرنے کو جی چاہتا ہے اور لگتا ہے آپ کو حکومت میں لا کر آپ کے خلاف سازش کی گئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنی حکومت کے آئینی مدت پورا کرنے کے حوالے سے بھی زیادہ پُراعتماد نہیں ہیں۔ بار بار وہ یہ کہتے رہے کہ کتنا عرصہ حکومت کرنی ہے یہ مشاورت سے فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ عمران خان بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے مگر انہیں لگتا تھا کہ بڑے جلسے کرنا الگ بات ہے اور انتخابی کامیابی حاصل کرنا الگ بات۔ 2011 اور 2012 کی انہوں نے مثال دی کہ جب عمران خان نے بڑے بڑے جلسے کیے تھے مگر 2013 کے انتخابات میں ووٹ عوام نے ن لیگ کو دیے۔ اب بھی انہیں لگتا ہے کہ الیکشن میں صورتحال مختلف ہو گی۔
ایسا لگتا ہے شہباز شریف اس صورتحال پہ غور کر رہے ہیں کہ فوری طور پر الیکشن میں جانا کم نقصان دہ رہے گا یا ایک سال بعد الیکشن میں جانا۔ فوری طور پر وہ یہ کہہ کر عوام کے پاس جا سکتے ہیں کہ ہم نے حکومت کو گھر تو بھیج دیا لیکن اب اندازہ ہوا کہ حالات بہت گھمبیر ہیں اور ملک کو فوری انتخابات کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ ایک سال بعد ناکامی سے دوچار ہوکر عوام کے پاس جائیں گے تو ناکامی کا ٹیکہ ان کے ماتھے پہ لگا ہوا ہو گا۔
پنجاب میں بھی آئینی بحران ختم نہیں ہو پا رہا۔ جیسے تیسے وزیر اعلی کاتو حلف ہو گیا مگر کابینہ کا حلف نہیں ہو پا رہا۔ گورنر کو ہٹانے کے لیے صدر نے سمری منظور نہ کی تو زبردستی وزیر اعلی ہائوس پہ بزور طاقت قبضہ کر لیا گیا۔ اس وقت پنجاب میں آئینی طور پر دو اشخاص وزیر اعلی ہونے کے دعویدار ہیں۔ ہٹائے جانے کے باوجود گورنر خود کو آئینی طور پر گورنر کہنے پر بضد ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو ہٹایا گیا تو انہوں نے بھی اپنی معزولی کو غیرآئینی قرار دے دیا۔ نئے مقرر کیے گئے قائم مقام گورنر نے ویسے ہی عہدہ سنبھالنے سے معذرت کر لی ہے۔ منحرف اراکین کا کیس الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔ انہیں ڈی سیٹ کر دیا گیا تو حمزہ پنجاب اسمبلی میں اکثریت کھو دیں گے۔ پنجاب کے ان حالات نے نئی حکومت کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔
انہی حالات کے پیش نظر نواز شریف نے وزیر اعظم سمیت پارٹی کے اہم رہنمائوں اور وزراء کولندن طلب کر لیا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ ممکنہ طور پر انہی تین مسائل پر گفتگو ہو گی جس نے نئی حکومت کو شدید دبائو میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کون جانے کہ یہ موضوع بھی زیر بحث آ ہی جائے کہ کہیں انہوں نے اتنی عجلت میں مختصر وقت کے لیے حکومت قبول کر کے غلطی تو نہیں کی اور یہ کہ کیا فوری طور پر اس غلطی کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔
رانا ثناء اللہ البتہ پر اعتماد دکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، فرماتے ہیں نومبر سے پہلے تو کسی صورت انتخابات نہیں کرائے جائیں گے۔ لیکن ان کی پارٹی کی اعلی قیادت کو حالات کی سنگینی کا ادراک ہے۔ عمران خان کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے البتہ ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ ہاں ذہن کے کسی کونے میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنمائوں کی گرفتاری کا آپشن موجود ہے جس کا اظہار وہ اشارے کنایوں میں کرتے نظر آتے ہیں۔
وزیر اعظم شہاز شریف سے میں نے سوال کیا کہ نوازشریف کی صحت اب کیسی ہے، وہ کب واپس آ رہے ہیں اور کیا حکومت ان کی سزا ختم یا معطل کرنے پر غور کر رہی ہے؟ جواب میں وزیر اعظم نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ کسی کی صحت کا مذاق اڑانا بہت بری بات ہے لیکن یہ انہوں نے نہ بتایا کہ واپس کب آئیں گے اور کیسز کا کیا بنے گا۔ یہ بات درست ہے کہ کسی کی صحت کا مذاق اڑانا بری بات ہے مگر اگر کوئی صحت یاب ہو چکا ہوا ور صحت کا بہانہ بنا کر عدالتوں سے بھاگ رہا ہو تو شاید یہ بھی بری بات ہے۔