آخر ضمانت کیسے ہو گئی؟تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک، یا تو شہریار آفریدی کے پاس ثبوت تھے ہی نہیں۔ دو، ثبوت تھے مگر مصلحتا عدالتوں کو دیے نہیں گئے اور رانا ثناء اللہ کو فائدہ پہنچایا گیا۔
تین، تمام ثبوت عدالت کو دے دیے گئے تھے مگر پھر بھی عدالت نے رانا ثناء اللہ کو چھوڑ دیا۔ تیسری صورت قرین قیاس نہیں لگتی، کیوں کہ اگر عدالت کو ثبوت دیے گئے ہوتے تو شہریار آفریدی ان تمام ثبوتوں کو میڈیا میں جاری کرتے اور بتاتے کہ وہ سچے ہیں اور رانا ثناء جھوٹے اور مجرم۔
مجھے رانا ثناء اللہ سے کوئی ہمدردی نہیں، میں سانحۂ ماڈل ٹاؤن میں انہیں 14 افرادکے قتل کا براہ راست ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ مگر جس بھونڈے انداز میں 15 کلو ہیروئین کے معاملے میں حکومت اور بالخصوص شہریار آفریدی نے سبکی اپنی جھولی میں ڈالی اس کی مثال نہیں ملتی۔ شہریار آفریدی ایک مذاق بن کے رہ گئے ہیں۔
ویڈیو اور فوٹیج کا فرق سمجھانے میں لگے ہیں مگر سمجھا نہیں پا رہے، بارہا مختلف ٹیلی ویژن ٹاک شوز اور پریس کانفرنس میں دہرا دہرا کران سے پوچھا گیا کہ ویڈیو کہاں ہے، ایک بھی سوال کا تسلی بخش جواب ان سے بن نہیں پڑا۔ پھر یہ کہنا اپنے طور پر لطیفے سے کم نہیں کہ تمام ثبوت دے دیے گئے تھے مگر ضمانت ہو گئی کہ آجکل ضمانتوں کا موسم ہے، شہریار آفریدی صاحب! ضمانتوں کا موسم ہوتا ہے تو کیا گرفتاریوں کا بھی موسم ہوتا ہے؟ اور عدالتیں موسم کے حساب سے چلتی ہیں کیا؟
ایک بات بہت سے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف چلنے والے پرانے مقدمے کی پیروی کو ضروری کیوں نہیں سمجھاجا رہا۔ ڈاکٹر طاہر القادری اس بات پر حکومت اور عمران خان سے ناراض ہیں کہ سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے مقدمے کو انجام تک پہنچانے کے لیے سرعت سے کام نہیں لیا گیا۔
حکومت کی جانب سے بنائی گئی نئی جے آئی ٹی کو عدالت نے کام کرنے سے روکا تو حکومت خاموش ہو کر بیٹھ گئی، ایک سال ہو گیا خاموشی کا تسلسل جاری ہے۔ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے منشیات کے مقدمے میں پھنسایا گیا، اگر مقدمے میں ہی پھنسانا تھا توماڈل ٹاؤن کیس میں کیوں نہیں؟ایک ایسے مقدمے میں کیوں جس کاکوئی بھی ثبوت حکومت دکھانے میں ناکام رہی۔ قانون کے مطابق چند گرام منشیات بھی سزائے موت کی طرف لے جاسکتی ہے یہاں تو15 کلو گرام ہیروئین کا معاملہ تھا۔
شہریار آفریدی فرماتے ہیں، ثبوت ہیں، مگر آپ کو کیوں دکھائوں؟ ہمیں مت دکھائیے حضور مگر عدالتوں کو تو دکھا دیجے۔ پھر فرماتے ہیں رانا ثناء اللہ کو صرف ضمانت ملی ہے وہ بری نہیں ہوئے۔ تو جناب جس طرح عدم ثبوت کی بنا پر انہیں ضمانت ملی ہے، ایسے ہی عدم ثبوت کی بنا پر و ہ بری بھی ہو جائیں گے، آپ منہ دیکھتے رہ جائیے گا۔
شہر یار آفریدی سے یہ پوچھنا چاہیے کہ چلیں ویڈیو میڈیا کو مت دکھائیں، ویڈیو یا فوٹیج عدالت کو بھی مت دکھائیں، صرف یہ بتا دیں کہ کیا آپ نے خود 15 کلو ہیروئین برآمدگی کی ویڈیو دیکھی ہے؟مجھے یقین ہے کہ آپ نے خود بھی نہیں دیکھی ہو گی۔ اگر دیکھی ہوتی توکہانی مختلف ہوتی، آپ کے ماتھے پر بل نہ ہوتے، آپ میڈیا سے جھگڑ نہ رہے ہوتے اور میڈیا سے یہ نہ پوچھ رہے ہوتے کہ آپ نے جان کس کو دینی ہے۔
شہر یار آفریدی صاحب نے بجا فرمایا کہ وہ اداروں کی مضبوطی اور آزادی پہ یقین رکھتے ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ ادارے بھی آپ کی مضبوطی اورخودمختاری پہ اتنا ہی یقین رکھتے ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اداروں کو مضبوط اور خود مختار بنانے کی کوشش میں لگے رہیں اور ادارے آپ کو کمزور بنانے کی پالیسی پر گامزن رہیں۔ آپ سٹیٹ بینک کو اختیار دے دیں کہ وہ روپے کی قدر گھٹانے یا بڑھانے میں خود مختار ہے اور وہ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آپ کو سبکی کے مرحلے سے گزارنے لگے۔ آپ اے این ایف کو خود مختار بنا کر خوش ہوں اور وہ سیاسی مقدمات بنا کر آپ کو ہزیمت کی کیفیت سے دوچار کر دے۔ ایسے کمزور مقدمات کی وجہ سے ہی یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ مخالفین پر سیاسی مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔
کمزور مقدمات بنانے سے نقصان یہ ہو گا کہ اصل اور زوردار مقدمات بناتے وقت بھی شور مچے گا کہ سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے، فرض کیجئے کہ اب ن لیگ کا کوئی لیڈر واقعی منشیات لیجاتے ہوئے پکڑا گیا، آپ نے اس کی ویڈیو بھی بنا لی، تمام ثبوت بھی حاصل کر لیے۔ اب جب آپ میڈیا کو بتائیں گے یا پریس کانفرنس کریں گے کہ منشیات پکڑی گئی ہے تو بادی النظر میں آپ کی صداقت مشکوک ٹھہرے گی۔ اپوزیشن شور مچائے گی کہ سیاسی انتقام لیا گیا ہے جیسے رانا ثناء اللہ کے معاملے میں کیا گیا تھا۔ رانا ثناء اللہ کی رہائی نے آپ کی اخلاقی حیثیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ آپ کی حکومت کا نظریۂ احتساب غیر معتبر نہیں ہو گیا؟ 15 کلو ہیروئین کے سنگین مقدمے میں موت کی سزا ہونی چاہیے تھی ضمانت کیسے ہو گئی؟
قارئین کو یاد ہو گا کہ جناب شہریار آفریدی نے وزیر بننے کے کچھ ہی عرصے بعد ایک اور ہوشربا انکشاف بھی کیا تھا کہ اسکول اور کالج کی 75 فیصد بچیاں منشیات کی عادی ہو چکی ہیں۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جس پر یقین کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس بیان کی سپورٹ میں شہریار آفریدی صاحب کے پاس کیا ثبوت ہیں کوئی نہیں جانتا۔ وہ آج بھی اپنے بیان پر قائم مگر ثبوت دینے سے قاصر ہیں۔
75 فیصد بچیوں کے والدین کو پریشانی، بے چینی اور اضطراب میں مبتلا کرنے کے بعد آپ نے اس کے انسداد کے لیے کیا اقدامات کیے؟ ایک سال میں آپ کی جانب اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں آئس کا نشہ کرنے والی بچیوں کی تعداد 75 فیصد سے کم ہو کر کتنے فیصد رہ گئی ہے؟
ان سوالوں کے جوابات دیجئے شہریار آفریدی صاحب، ویڈیو دکھائیے، ویڈیو نہیں تو ثبوت دکھایئے، بتائیے کہ قوم کے مجرم، منشیات کا دھندا چلانے والے درندے اور قوم کے بچوں اور بچیوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے رانا ثناء اللہ کی ضمانت کیسے ہوگئی؟