ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخاب جیت کر امریکہ کے 47ویں صدر منتخب ہو چکے ہیں سات ارب ستر کروڑ ڈالر کی بنا پر انھیں ملک کا امیر ترین صدر کہہ سکتے ہیں۔ ماضی میں یہ اعزاز جان ایف کینڈی کے پاس تھا جن کی دولت ایک ارب تیس کروڑ ڈالر تھی مقتدرہ کی طرف سے مداخلت کے خدشات کی بناپر ٹرمپ کی حالیہ جیت غیر متوقع ہے مگر ساڑھے چھ کروڑ کے مقابل ساڑھے سات کروڑ ووٹروں کا اعتماد کرنا نئی تاریخ ہے، جبکہ 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے جیت کے لیے 270 کی ضرورت تھی ہیرس تو 226 سے آگے نہ بڑھ سکی اور ٹرمپ کیسے 295 لے گئے؟
اِس پر حیران و ششدر امریکی بھی سوچ وبچار میں ہیں۔ گارڈین کے خیال میں وہ تاریخ کے بدترین صدر قرار پائے اور بوڑھے ترین بھی، جب آمدہ برس بیس جنوری کو ٹرمپ اپنے منصب کا حلف اُٹھائیں گے تو اُن کی عمر 78 سال 221دن ہوچکی ہوگی جبکہ موجودہ صدربائیڈن نے 78برس 61دن کی عمر میں حلف اُٹھایا۔ ٹرمپ تاریخ کے واحد صدر ہیں جن کا کانگرس نے دوبار مواخذہ کیا امریکی صدر گروورکلیولینڈ کے بعد ٹرمپ دوسرے شخص ہیں جو ایک ٹرم انتخاب ہار کر تیسرا انتخاب جیت کر امریکہ کے دوسری بارصدر منتخب ہوئے۔ اپنی رنگین مزاجی اور پلے بوائے کی شہرت کے باوجود امریکیوں کے دل جیتے حالانکہ ہزاروں خرابیوں کے باوجو د امریکی کوشش کرتے ہیں کہ رہنما بے داغ کردار کا مالک ہو قسمت کی یاوری سے ٹرمپ نے تمام ترخامیوں کے باوجود دلوں میں نہ صرف جگہ بنائی بلکہ فقید المثال کامیابی بھی حاصل کی۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی جیت میں سب سے زیادہ عمل دخل ایک خاتون کا امیدوار ہونا ہے اور یہ کہ اگر مدمقابل کوئی مرد ہوتا تو شاید ٹرمپ کو غیر معمولی کامیابی نہ ملتی۔ دلیل یہ کہ کملا ہیرس کا ہیلری کلنٹن سے موازنہ ہی نہیں بنتا لیکن وہ بھی کامیابی حاصل نہ کر پائیں کیونکہ ووٹ دینے کا مرحلہ آیا تو اکثریت نے ایک مرد کو خاتون پر فوقیت دی۔ اب بھی صنفی تفریق ہی ٹرمپ کو فتح دلانے کا باعث بنی اور یہ کہ امریکی معاشرہ لاکھ لبرل اور روشن خیالی کا دعویٰ کرے انتخاب میں صنفی تفریق مقبولیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کچھ تو کہتے ہیں کہ لوگوں نے اِس ڈر سے ٹرمپ کو ووٹ دے دیے کہ کہیں دوبارہ ملک کو چھ جنوری 2021کیپٹل ہل جیسے سانحے کاسامنا نہ کرنا پڑے مگر اِس دلیل میں کوئی وزن محسوس نہیں ہوتا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ گورے لوگ رنگداروں کو خود سے کم تر سمجھتے ہیں اور باراک اوبامہ کا ردِ عمل ٹرمپ ہیں نیز حملے کے باوجود حواس قائم رکھنے پر امریکیوں نے فیصلہ کر لیا کہ ملک کو ایسے ہی مضبوط اعصاب کے مالک کی ضرورت ہے۔
ہیرس نے شکست تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ کو مبارکباد دی ہے۔ اِس لیے ملک میں ہنگامہ آرائی کا تو کوئی امکان نہیں رہا بلکہ پُرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی یقینی ہوگئی ہے لیکن ہیرس کی شکست پر تبصرے و تجزیے جاری ہیں۔ اُن کی ہار میں اسرائیل کی غیر متزلل حمایت کا بھی عمل دخل ہے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑانے کے باوجود ہتھیار فراہم کرنے جیسے دعوے عوامی مقبولیت کرنے کا باعث بنے۔ دلیل فلسطینی خاتون امیدوار کا یہودی امیدوار کو عبرتناک شکست سے دوچار کرنا پیش کی جاتی ہے۔ فلسطین میں جاری نسل کشی اور بیروت پر آتش و آہن برسانے کے عمل کو امن پسندوں کے لیے سراہنا مشکل ہے لیکن امیر یہودیوں کو اپنی حمایت پر رضامند کرنے کے لیے ہیرس نے عوامی نفرت مول لی اور شکست کی کھائی میں جاگریں۔ کچھ لوگ انتخابی شکست کو ہیرس کے سیاسی کردارکے خاتمے کا سنگِ میل قرار دیتے کہتے ہیں کہ اب شایدہی وہ مستقبل میں کبھی صداتی انتخاب میں حصہ لیے سکیں۔
معاشی جمود کا شکار دنیا جنگوں کی متحمل نہیں ہو سکتی مگر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی کی طرف سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اور یوکرین و روس جنگ کوختم ہونے سے روکنے میں امریکی کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اگر جوبائیڈن انصاف سے کام لیتے تو تباہی کو روکنا ممکن تھا مگر بائیڈن و ہیرس نے اِس حوالے سے مجرمانہ کردار ادا کیا۔ ایسے حالات میں ٹرمپ کی طرف سے جنگیں روکنے اور تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کی بات نے ووٹروں کے دل جیت لیے۔ اب اور کچھ ہو یا نہ ہو مشرقِ وسطیٰ میں امن بحال ہونے کے ساتھ روس و یوکرین میں جاری جنگ کاخاتمہ ہو سکتا ہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ نے جاتے جاتے اسرائیل کو دفاعی ساز و سامان دینے کا ایک بڑامعاہدہ کیا ہے جس کی مالیت چودہ کھرب سے زائد ہے ٹرمپ بھی اسلحے کی فروخت سے امریکی معیشت بہتر بنانے کا نظریہ رکھتے ہیں لیکن حالیہ صدر کی طرح نسل کشی کی اجازت شاید ہی دیں دنیا کو توقع ہے کہ ٹرمپ تنازعات ختم کرانے میں وعدے کے مطابق دلچسپی لیں گے۔
دنیا تیزی سے کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے جسے امریکہ روکنے کی جدوجہد میں ہے۔ ٹرمپ نے 2016 سے 2020 میں پہلے دورِ صدارت کے دوران چین سے تجارتی جنگ چھیڑے رکھی۔ نہ صرف اپنے ملک کو پیرس ماحولیاتی معاہدے سے الگ کر لیا بلکہ ایرانی جوہری معاہدے سے بھی علیحدگی اختیار کر لی۔ اب بھی شاید وہ اپناطرزِ عمل برقرار رکھیں اور تارکین وطن کے حوالہ سے بھی پالیسی میں کوئی نرمی نہ لائیں لیکن اب اُن کے پاس تجربہ ہے اِس لیے ممکن ہے پہلے دورِ صدارت کی طرح بچگانہ بیان بازی اور حرکتوں سے اجتناب کریں۔
امریکہ کے نہ صرف چین سے تعلقات سخت خراب ہیں بلکہ روس سے تعلقات میں بھی کشیدگی وتناؤ عروج پر ہے۔ مستقبل میں یہ بدمزگی مزید بڑھنے کا قوی امکان ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ دنیا کو امریکہ طاقت سے دھمکانے سے گریز کرے۔ ٹرمپ جسے روس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والا کہا جاتا ہے مگر جیت پر ماسکو نے کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا بلکہ واضح طور پر کہا ہے کہ اقتدار کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں آئے گا اور امریکہ مستقبل میں بھی دوست نہیں دشمن ہی رہے گا۔ علاوہ ازیں امکان ہے کہ چین کے تجارتی سامان پر ٹرمپ انتظامیہ اضافی ٹیکس لگا دے ایسا ہوتا ہے تو تائیوان تنازع پر دونوں ملکوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں مزید اضافہ ممکن ہے۔ البتہ پہلی تقریر میں ہی ٹرمپ کا بھارت کو ایک سچا دوست اور مودی کو شاندار ملک کہنا واضح کرتا ہے کہ صدر کی تبدیلی سے امریکہ و بھارت تعلقات میں کمی آنے کی بجائے بلندیوں کی نئی سطح تک جا سکتے ہیں۔
یک قطبی نظام بنانے میں نیٹو اور مغربی ممالک کا اہم کردار ہے لیکن ٹرمپ امن کی بات کرتے ہیں۔ اِس لیے ایک امکان یہ بھی ہے کہ وہ نیٹو کی مضبوطی و فعالیت کے لیے بائیڈن جیسا کردار ادا نہ کریں یا نیٹو کی مالی مدد میں کمی کر دیں۔ شاید ایسے ہی امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یورپی یونین کے ایک سفیر نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی جیت یورپی یونین کے لیے تعجب کی بات نہیں اور یورپی اتحاد کے رُکن ممالک اپنے دفاع کے لیے تیار ہیں۔ ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے سے امریکہ سے کئی ممالک کے تعلقات کی نوعیت بدل سکتی ہے کیونکہ ٹرمپ کی ترجیح امریکہ ہوگا لہذا اپنے شہریوں کے ٹیکس کی رقم اتحادیوں میں تقسیم کرنے جیسی روایات پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔